"MABC" (space) message & send to 7575

کون دے گا گواہی اور فیصلہ ؟

''مسنگ پرسن‘‘ کے نام پر جس منظم طریقے سے پاکستان کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے ،اسے دیکھنے اور سننے کے بعد ایک عام ذہنی سطح کا فرد بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ '' کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔ لاپتہ افراد کے نام پر انٹر نیشنل کمیشن آف جیورسٹس، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور زبردستی غائب کیے جانے والوں کا دن منانے والے مبصروں سمیت امریکی اور بھارتی میڈیا کے ساتھ ساتھ اسی ساز اور آواز میں پاکستان کے میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے بھی پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اٹھائی جانے والی آوازیں،ان تنظیموں کی جانبداری پر سوالات اٹھا رہی ہیں؛ کیونکہ ایک خاص تنظیم کے خلاف پاکستانی میڈیا کے ایک حصہ کی مہم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ غیرجانبدار میڈیا‘ پاکستان کی انسانی حقوق سے متعلق تنظیموں اور ان کے ہمنوا پاکستانی ذرائع ابلاغ سے پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ انہوں نے لاہور کے قتل عام اور اس پر احتجاج پر‘ پنجاب اور اسلام آباد میں گزشتہ دو ماہ کے دوران پچیس ہزار سے زائد سیا سی کارکنوں کی گرفتاریوں اور نظر بندیوں پر آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ پاکستان پر گرد اڑانے والی یہ تمام تنظیمیں کیا نہیں جانتیں کہ دہشت گرد تنظیموں نے یوسف رضا گیلانی اورمرحوم گورنر سلمان تاثیر کے بیٹوں اور پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر اجمل خان سمیت درجنوں لوگوں کو اغوا کیا۔ کرنل امام اور خالد خواجہ کو تو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ایسے تمام لوگوں سے اور ان کے خاندانوں سے ہر پاکستانی دلی غم اور دکھ کا اظہار کرتا ہے لیکن ان دہشت گردوں سے نہیں‘ جنہوں نے گزشتہ دس سالوں سے شہریوں کا دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ عوام دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں سے کس قدر نفرت کرتے ہیں، اس کی مثال وہ دہشت گرد ہیں، جنہیں ان کے گائوں والوں نے اپنے قبرستانوں میں دفن کرنے کی اجا زت تو دور کی بات‘ ان کی نمازہ جنازہ تک پڑھنے سے بھی صاف انکار کر دیا ۔
دہشت گردوں کے ہاتھوں گزشتہ دس سال کے دوران بلوچستان‘ کراچی سمیت ملک بھر میںچھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز کے ارکان اورپچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہری شہید ہو چکے ہیں، لیکن کسی بھی عالمی تنظیم نے اس بھاری جانی نقصان پر پاکستان سے ہمدردی کا ایک لفظ بھی نہیں کہا؟ جی ایچ کیو، کامرہ، مہران اور کراچی ڈاکیارڈ جیسے اہم ترین فوجی اداروں اور تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ جب ان واقعات میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کر کے ان کے تعلقات اور ساتھیوں بارے پوچھ گچھ کی گئی تو دنیا بھر میں شور مچ گیا کہ انہیں کیوں پکڑا گیا ہے؟ پاکستان میں تخریب کاری میں مصروف بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کیلئے کیا کیا حربے اختیار کرتی ہیں۔ وہ اس قدر خطرناک ہیں کہ قانون بھی ان کے سامنے بے بس ہو کر رہ گیا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا جنوبی پنجاب کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت کے جج‘ مقدمے کی سماعت کیلئے کمرہ عدالت میں پہنچ کر کرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ کہیں سے ایک چٹ ان کے سامنے پہنچی‘ جسے پڑھنے کے بعد ان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ فوری طور پر کمرہ عدالت سے نکلے ،اپنے چیمبر میں پہنچ کر انہوں نے تین ماہ کی چھٹی کی درخواست لکھی اور گھر پہنچ گئے۔ پھر کچھ عرصہ کیلئے اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک چلے گئے۔کمرۂ عدالت میں ان کی 
میز پر پہنچنے والی چٹ میں لکھا تھا ''آج آپ ہمارے مقدمے کی سماعت تو کر رہے ہیں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے بچے کس رنگ اور ماڈل کی گاڑی میں کون سے سکول گئے ہیں۔ انہیں وہاں سے کتنے بجے چھٹی ہونی ہے۔‘‘ اگر ایک طرف جج صاحبان کو دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے ملنے والی دھمکیاں ہیں تو دوسری جانب ملک بھر کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو،ان کے خلاف گواہان کو عدالت لانے‘ ان کو گھروں اور معاشرے میں تحفظ دینے کیلئے بے پناہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،بلکہ ایک سینئر پولیس افسر کے مطا بق اگر پچاس مقدمات ہوں تو بمشکل ایک یا دو لوگ گواہی دینے پر آمادہ ہوتے ہیں۔جب پاکستان کے فوجی ہیڈ کوارٹرز، نیول بیس اور اہم ترین ڈاکیارڈ کراچی جیسی اہم ترین تنصیبات پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کو پکڑنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں اور ان گرفتاریوں میں ان کی معاونت کرنے والی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کاروں کو آئے روز عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا تو پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مورال بلند ہوگا
یا دہشت گردوں کا ؟کیا یہ ایجنسیاں جو پاکستان کو ہیومن رائٹس کے نام پر بد نام کر رہی ہیں‘ بتا سکتی ہیں کہ بلوچستان میں وہ کون سا دن ہے جب وہاں پولیس اور ایف سی سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ قتل نہیں کیے جارہے؟ کیا ریلوے کی پٹڑیاں اور گیس کی پائپ لائنیں تباہ نہیں کی جارہیں؟
یہ بات تو اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہی کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے رابطے بہت دور تک پھیل چکے ہیں۔ یہ واقعہ کیسے بھلایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے پولیس ایک زخمی دہشت گرد کو بڑی رازداری کے ساتھ لاہور کے جناح ہسپتال لائی۔ مشکل سے آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ مسلح دہشت گردوں کا جتھا زخمی کے وارڈ اور کمرے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد زبردست فائرنگ ہوئی جسے جناح ہسپتال کا عملہ ابھی تک نہیں بھول سکا۔یہ دہشت گرد دنیا کی کسی بھی بہترین گوریلا فورس کے برابر تربیت یافتہ ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ، رابطوں اور سیٹلائٹ کے آلات ہیں۔ یہ باتیں جہاں سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے مشکل بن گئی ہیں‘ وہاں پر استغاثہ کے پراسیکیوٹرز کیلئے بھی انتہائی خطرہ بن چکی ہیں۔ اس سلسلے میں بیت اﷲ محسود کے ساتھیوں کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی مثال سب کے سامنے ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں تو صورت حال خوفناک حد تک بگڑ چکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں