''محافظ جمہوریت ‘‘ محمود خان اچکزئی افغانستان گئے تو بہت ہی چپکے سے تھے لیکن بھانڈا اس وقت پھوٹا جب ان کے ساتھ بھیجے جانے والے ایڈیشنل سیکرٹری ساری رات ہوٹل کے کمرے میں ان کا انتظار کرتے رہے تاکہ صبح افغان صدر حامد کرزئی سے کی جانے والی خصوصی ملاقات کی تفصیلات طے کی جا سکیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خارجہ کو اگلی دوپہر جا کر کہیںعلم ہوا کہ اچکزئی تو ساری رات حامد کرزئی کے محل میں ''مذاکرات‘‘ کرتے رہے ہیں اور ان مذاکرات کا نتیجہ اس طرح نکلا کہ حامد کرزئی کی سربراہی میں افغان نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی آئی ایس آئی کو ''سب سے بڑے دہشت گرد ‘‘کے خطاب سے نوازا گیا اور یہ خطاب دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان و بھارت محمود خان اچکزئی کی تنہائیوں کے ساتھی حامد کرزئی تھے۔ ایک نجی چینل پر اچکزئی صاحب کی جس افغان انٹیلی جنس افسر کے ساتھ تصویر وں نے دھوم مچائی ہوئی ہے ،اسی بریگیڈیئر جنرل اورافغانستان کی وزارت دفاع کی تیار کردہ مشترکہ رپورٹ بھی افغان نیشنل سکیورٹی کونسل میں زیر بحث تھی جس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو افغانستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں مبینہ طور پر ملوث بتایاگیا تھا ۔ اپنے اعزاز میں منعقدہ الوداعی تقریب میں حامد کرزئی ایک طرف بھارت کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے اسے افغانستان کا سب سے قریبی اور بہترین دوست قرار دیتے رہے تو دوسری طرف پاکستان پر تخریبی کارروائیوں اور پاک افغان سرحد کے دونوں جانب ہونے والی دہشت گردی کے الزامات کی بارش کرتے رہے اور ایسا کچھ کہتے رہے جیسے ہوش و حواس میں ہی نہ ہوں؟۔
حامد کرزئی کسی کی جانب سے دیئے گئے سکرپٹ یاجان بوجھ کر ہمیشہ کی طرح جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنا اندرونی اور موروثی غصہ نکالنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر وہ افغانستان میں استعمال ہونے والے خطرناک ترین اسلحے کے بارے اصل حقائق بھول چکے ہیں تو ہم انہیں ،دنیا بھر کے میڈیا اور افغان نیشنل سکیورٹی کونسل کے اراکین کو وہ رپورٹ یاد کرا دیتے ہیں جو ابھی حال ہی میں امریکہ کے سپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان تعمیر و ترقی John F Sopko کے ادارے'SIGAR‘ نے تیار کی ہے ۔اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ'' امریکہ نے افغان نیشنل سکیورٹی فورسزکو جو اعلیٰ ترین اسلحہ ، گولہ بارود، جاسوسی اور فوجی آلات فراہم کیے تھے، ان کے بارے میں کوئی پتہ نہیں چل رہا کہ کدھر گئے؟۔ افغان حکومت کے ذمہ داران اور نیشنل سکیورٹی فورسز کے علا وہ ان کی خفیہ ایجنسی رام سے بھی ان ہتھیاروں کے بارے میں سختی سے پوچھا جا رہا ہے ، لیکن کوئی بھی اس کا جواب دینے کو تیار نہیں بلکہ جب اس بارے میں مزید تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ اسلحہ کے علا وہ جدید آلات سے آراستہ امریکی وہیکلز جو انہیں طالبان کے خلاف آپریشن کیلئے مہیا کیے گئے تھے وہ بھی غائب ہیں...‘‘ امریکہ کے سپیشل انسپکٹر جنرل کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹ سب کے سامنے ہے جس میںافغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور ان کی نیشنل سکیورٹی کونسل سے جواب مانگا جا رہا ہے کہ اربوں روپے فوجی مالیت کا سازوسامان کون اور کدھر لے گیا ہے ؟۔
امریکیوں نے جب اپنا ریکارڈ چیک کیا تو جو ہوش ربا حقائق سامنے آئے ،انہوں نے سب کو لرزا کر رکھ دیا۔ اس آڈٹ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں موجود امریکی فوج کے پاس83362 کلاشنکوفیں تھیں اور ان میں سے اب تک صرف 178کلاشنکوف ان کے استعمال میں آئیں۔RPX مشین گنیں24241 تھیں ، ان میں سے9345 استعمال کیں،GP25/30گرینیڈ لانچر18322 تھے لیکن استعمال صرف4838 کیے گئے۔ رشینPKM مشین گنیں18020 تھیں لیکن استعمال 15302 ہوئیں،12 guage شارٹ گن کی تعداد11710 تھی اورامریکیوں نے 9846 استعمال کیںRPG-7 اینٹی ٹینک گنیں8242 تھیں لیکن 5019 استعمال کی گئیں،M4 کارلائن رائفلز کی کل تعداد1161 تھی، ان میں سے 621 کو استعمال میں لایا جا سکا۔ افغانستان میں امریکی اسلحہ خانہ کا یہ ریکارڈ سب کے سامنے ہے ۔اس ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس قدر بھاری تعداد کا جدید ترین اسلحہ کہاںگیا؟۔
یہ ہے محافظ جمہوریت اچکزئی اور حامد کرزئی کا پلان جوظاہر کرتا ہے کہ یہ گم شدہ جدید ترین امریکی اسلحہ کرزئی اور اس کے قریبی با اعتماد دوست بھارت نے ایجنسیوں کے ذریعے بلوچستان اور فاٹا میںاپنے لڑاکا گروپوں میں تقسیم کرایا اور ان کے ذریعے اب تک دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔یہ حقائق بھی سامنے آرہے ہیں کہ افغانستان میں گزشتہ دو ماہ سے تخریب کاری کے واقعات میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آنے لگا اور سب سے زیا دہ نیٹو، ایساف ، امریکہ اور بھارت کو ٹارگٹ کرتے ہوئے انہیں جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا۔ اس طرح شاید کرزئی حکومت اور ان کے پاکستان میں موجودساتھی اور ہمدرد چاہتے تھے امریکہ کا مزید قیام اور کرزئی کا مقام ضروری ہو جائے اور امریکی اسی طرح افغانستان میں موجود رہیں جیسے پندرہ سال پہلے تھے ۔ ان کے پلان کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ پاکستانی فوج کو بھی لمبے عرصے تک اپنی مغربی سرحدوں میں انگیج رکھا جائے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علا وہ حال ہی میں سوات اور لوئی دیر سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے پکڑے جانے والے اسلحہ نے بھی سوچنے پر مجبور کر دیاتھا کہ اس بار تحریک طالبان کے ہر گروپ کے پاس ذرائع نقل وحرکت اور ان کی طرف سے فائر کیا جانے والا گولہ بارود اور اسلحہ انتہائی جدید طرز کا کیوں ہے؟۔اس بات کا کھوج بھی لگا یا جا رہا تھا کہ تحریک طالبان کے اہم ترین ٹھکانوں میں پاکستان کی سکیورٹی فورسزان کے بہت سے اسلحہ ذخائر کو تباہ کر چکی ہے تو پھر انہیں دھڑا دھڑ اس قسم کا جدید ترین امریکی اسلحہ کس طرح اور کہاں سے ملنا شروع ہو گیا ہے؟۔
حامد کرزئی کی پاکستان کے متعلق اختیار کی جانے والی زبان یہ بھی ظاہر کر رہی تھی کہ ان کے دل میں پاکستان کے خلاف کس قدر زہر بھرا ہے اور جس حکمران کے دل میں اپنی سرحدوں سے جُڑے ہوئے ملک کے خلاف اس طرح کے جذبات موجزن ہوں ، اس کے بارے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک جا سکتا ہے؟ اس حد کااندازہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے اندر آئے روز کی گولہ باری سے بآسانی کیا جا سکتا ہے ۔آج کرزئی اقتدار سے رخصت ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ اشرف غنی اور عبد اﷲ عبد اﷲ اقتدار میں آگئے ہیں ۔آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ کرزئی کی موروثی نفرت اور اس کے قریبی دوستوں کے وارث ہیں یا اس افغانستا ن کے ،جو امن سلامتی اور ترقی و خوش حالی کا متلاشی ہے؟