ویسے تو جاوید ہاشمی صاحب جب سے '' ان دی لائن آف ڈیوٹی‘‘ ہوئے ہیں‘ تقریباََ روزانہ ہی ایک پریس کانفرنس کر رہے ہیں لیکن اپنی تین نئی تازہ پریس کانفرنسوں میں انہوں نے عمران خان پر چند بہت ہی سنگین الزام لگا ئے ہیں۔ انہوں نے پہلے الزام میں کہا ہے کہ دھرنے والوں نے پہلے چار پانچ کارکنوں کو قتل کرانے کے بعد حکومت کو گرانا تھا لیکن جب تیس اور اکتیس اگست کی رات کو ان کے بہت سے کارکن پولیس کی سیدھی گولیوں سے مار دیے گئے تو ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود شریف انتظامیہ نے ان کو مرنے والوں کی لاشوں تک پہنچنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس پر دھرنے والے مایوس ہو گئے تو فیصلہ ہوا کہ کسی بڑی شخصیت کو قتل کروا کر نواز شریف حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ہاشمی صاحب کو کے بلاک میں بیٹھی ہوئی کسی انتہائی اہم شخصیت نے بتا دیا تھا کہ آپ سے بڑی شخصیت اور کون ہو سکتی ہے۔ یہ اطلاع ملنے پر انہیں بہت ہی دکھ ہوا کہ میری کارروائیوں کا یہ انعام دیا جا رہا ہے؟ اس پرانہوں نے عمران خان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور انتہائی سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان جب بھی کور کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آتے تھے‘ ہمیشہ بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے ہوتے تھے ۔یہ اس قدر سنگین الزام ہے کہ عمران خان کے خلاف فوری طور پر آئین کے آ رٹیکل6 کے تحت کارروائی ہونی چاہیے اور اس کے لیے سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ ججوں چوہدری افتخار اور خلیل الرحمن رمدے پر مشتمل ایک سمری کورٹ بنا کر سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔
''ان دی لائن آف ڈیوٹی ‘‘ میں یہ الزامات تو ابتدائی ہیں۔ ابھی ہاشمی صاحب نے اور بہت کچھ کہنا ہے اور بہت کچھ ان سے کہلوایا جانا ہے۔ہوسکتا ہے ، اس مضمون کی اشاعت تک ہاشمی صاحب کی‘ ہولناک اور خطرناک ترین عزائم کو ننگا کرنے والی‘ نہ جانے اور کتنی پریس کانفرنسیں منظر عام پر آ جائیں لیکن اب تک اپنی ہر پریس کانفرنس میں انہوں نے جو بھی بات کی ہے اس پر بے وقوف قسم کے لوگ نہ جانے حسد کے مارے ہنسنا کیوں شروع ہو جاتے ہیں‘ جو نہایت ہی نا منا سب عمل یا ردعمل ہے‘ کیونکہ ہاشمی صاحب ہر بات پورے ناپ تول کے ساتھ کرتے ہیں اور شیخ رشید جیسے حاسدین یہ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ جو کچھ ان کے منہ میں آتا ہے‘ کہہ دیتے ہیں۔ شیخ رشید صاحب کہتے ہیں کہ ان کی پریس کانفرنسوں اور بیانات کو دیکھنے اور سننے کے بعد انہیں ایک بہت ہی پرانا واقعہ یاد آ جاتا ہے‘ جب آج سے چالیس پچاس برس قبل محکمہ تعلیم کے ایک انسپکٹر آف سکولز پوٹھو ہار کے کسی دور دراز علاقے کے سکول میں طالب علموں کے تعلیمی معیار کا جائزہ لینے کے لیے پہنچے۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے کلاس روم میں آئے تو اپنے سامنے بیٹھے ہوئے طالب علموںسے سوال پوچھا کہ اگر قریب ترین لاری اڈہ تمہارے سکول سے تین کلومیٹر دور ہو اور اس وقت تمہارے گائوں کے بازارمیںچنے کی دال کا بھائو تین روپے فی کلو ہو‘ تو یہ بتائو کہ اس وقت میری عمر کتنی ہے؟۔ یہ سوال سنناتھا کہ سکول کے ہیڈماسٹر اور آٹھویں جماعت کے استاد حیران و پریشان ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ یہ کس قسم کاسوال ہے؟ لیکن ان کی پریشانی اس وقت اور بھی بڑھ ہو گئی جب کلاس روم میں سب سے آخری قطار میں بیٹھے ہوئے ایک نالائق سے لڑکے نے اپنا ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے اسے زور زور سے ہلا نا شروع کر دیا۔
انسپکٹر آف سکولز نے اس لڑکے کو کھڑا ہونے کا کہا اور اپنا سوال دہراتے ہوئے اس کا جواب پوچھا۔ لڑکے نے جواب دیا '' جناب اس وقت آپ کی عمر40 سال ہے‘‘۔ انسپکٹر صاحب جواب سن کر بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کی عمر واقعی چالیس برس تھی۔ انہوں نے لڑکے کو پاس بلا کر شابا ش دیتے ہوئے پوچھا کہ تم نے اس سوال کا جواب کیسے تلاش کیا؟۔ لڑکے نے کہا ''جناب‘ یہ تو بہت ہی سیدھا سادہ اور آسان سا سوال ہے۔ میرا ایک بڑا بھائی ہے جو کبھی باپ کی چغلیاں لگاتا ہے تو کبھی والدہ کی اور اگر اسے بازار بھیجا جائے کہ جا کر نمک لے آئو تو وہ وہاں سے سبزی لے آتا ہے۔ اس کی کسی بات کی اب تک ہمیں سمجھ نہیں آئی اور اس کی یہ عادت بھی بہت ہی بُری ہے کہ ہر کسی پر کوئی نہ کوئی الزام لگاتا رہتا ہے۔ ایک جگہ ٹک کر بیٹھنا تو گویا اس نے سیکھا ہی نہیں۔ گائوںمیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر وقت چھتیں پھلانگتا رہتا ہے۔ میرے اس بڑے بھائی کی عمر بیس سال ہے۔ آپ کا سوال سننے کے بعد میں نے سوچا کہ
اگر آپ نے اس قدر بونگا سوال پوچھا ہے تو آپ کی عمر لازمی اس سے دوگنی یعنی چالیس سال ہو گی‘‘۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںاپنی آخری تقریر میں جاوید ہاشمی صاحب نے جہاں اور بہت سی باتیں کیں‘ وہیں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ''جو عزت مجھے عمران خان نے دی وہ عزت مجھے آج تک کسی نے بھی نہیںدی‘‘۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ اس کے بدلے اب جو عزت میں عمران خان کو دینے جا رہا ہوں‘ یہ بھی دنیا یاد رکھے گی اور توبہ توبہ کرے گی۔ جاوید ہاشمی صاحب کے آئے روز کے بیانات سننے کے بعد قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ نہ جانے کیوں بار بار یاد آتی ہے‘ جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ '' میں نے انسان کو اچھی سے اچھی حالت میں پیدا کیا اور پھر اسے سب سے نچلی حالت میں پھیر دیا‘‘۔سوچنے والی بات ہے کہ اچھی سے ا چھی حالت میں پیدا ہونے والا انسان سب سے نچلی حالت میں کیسے پہنچ جاتا ہے؟ کیا اپنے اعمال کی وجہ سے یا عادات کی وجہ سے؟۔کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ اعمال عادات بن کر رہ جاتے ہیں اور بعض عادتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور انہی عادات کی وجہ سے لوگ ایسے شخص سے منہ پھیر لیتے ہیں اور پھر اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا!!