"MABC" (space) message & send to 7575

ایک خوف زدہ شخص

ایک ہی ہفتے میں رونما ہونے والے دو واقعات نے لاکھوں والدین کو، جن کے بچے موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں، نفسیاتی اور ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ غازی روڈ ڈیفنس میں نوجوان موٹر سائیکل سوار طاہر کی گیلانیوں کے محافظوں کے ہاتھوں ہلاکت اور ون ویلنگ کے نام پر آنے والی موٹر سائیکل سواروں کی شامت دیکھنے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ یہ افریقہ کا کوئی ایک سو سال پرانا ایسا ملک ہے جہاں نہ تو قانون ہے اور نہ ہی انسانیت؟۔ طاہر پر فائرنگ کرنے والے اس کی توجیہہ یہ کر رہے ہیں کہ وہ جیب میں ہاتھ ڈال رہا تھا، ہم سمجھے کہ ہتھیار نکال رہا ہے؟ 
یہ دونوں واقعات میڈیا کی سکرین پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے، جنہیں بار باربھی دھویا جائے تو ان کی بد نمائی میں کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی۔ دونوں واقعات کا تعلق موٹر سائیکل چلانے والے عام لوگوں سے ہے جن کا معاشرے میں نہ تو کوئی مقام ہوتا ہے ،نہ کوئی احترام۔ ٹیلی ویژن پر دکھایا جا رہا تھا کہ لاہور ماڈل ٹائون کچہری میں عید سے اگلے روز، ایک خاتون مجسٹریٹ کی عدالت سے تیس تیس ہزار روپے کے مچلکوں پر کوئی پچاس کے قریب لڑکوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔بہت سے لڑکوں نے حلفیہ کہا کہ وہ تو اپنے کزنز کے ساتھ رشتہ داروں کو ملنے کیلئے جا رہے تھے لیکن پولیس نے ہمیں پکڑ کر پہلے تو مارا پیٹا پھر جیلوں میں بند کر دیا اور رات کو ہمارے گھر والوں سے کھانے کے نام پر پانچ
سو سے ایک ہزار روپیہ تک وصول کیا۔ لڑکوں نے کہا کہ جناب ہماری موٹر سائیکلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ موٹر سائیکلیں '' ون ویلنگ‘‘ کیلئے استعمال ہو سکتی ہیں ؟ ان بچوں کے ٹی وی پر یہ دکھ بھرے الفاظ کہ: ایک سال بعد آنے والی عید بھی ہم اپنے گھر وں کی بجائے جیلوں میں اس طرح گزار آئے ہیں جیسے ہم کوئی بہت بڑے مجرم تھے، بڑے ہی درد ناک تھے۔ کاش کہ مجسٹریٹ صاحبہ پولیس کے کاغذات دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان بچوں سے بھی حقائق پوچھ لیتیں۔ میں نے بہت سے قانون دانوں سے اس مسئلے پر بات کی ہے، سب کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی سڑکوں پر جگہ جگہ ناکوں کے نام پر موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ پولیس کی محافظ فورس کے شیر جوان صبح کے ناشتے، دوپہر کے کڑاہی گوشت اور رات کے قورمے کیلئے جو سلوک کرتے ہیں، اس کا قانون کی کسی کتاب میں کوئی جواز نہیں ہے اور کسی بھی تھانے کی حدود میں ناکے لگانے والوں کو ہر گزرنے والے موٹر سائیکل سوارپر لاٹھی چارج کرنے کا کوئی حق نہیں ۔موٹر سائیکلوں پر گھومنے والے محافظ فورس کے جوان جس قسم کی لوٹ مار کرتے ہیں اس کا تصور وہی کر سکتے ہیں جن کاکبھی ان '' محافظوں‘‘ سے پالا پڑ ا ہو۔ 
طاہر اور اچھرہ انڈر پاس پر ہونے والے دو واقعات کے بعد ہر باپ پریشان رہنے لگا ہے۔ جس کا بیٹا بھی موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے، جونہی وہ گھر سے نکلتا ہے، تو باپ کو وہم سا ہونے لگتاہے کہ یا تو وہ کسی بڑی شخصیت کے محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن جائے گا یا سڑکوں پر جگہ جگہ ڈنڈے اور لاٹھیاں اٹھائے ہوئے پنجاب پولیس کے جوانوں کا شکار بن جائے گا۔ میں اپنے بیٹے کو طاہر والا واقعہ یاد دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ کبھی بڑی گاڑیوں کے قریب سے بھی گزرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ اپنی رفتار آہستہ کر کے ان کوگزرنے کاموقع دیا کرے، کیونکہ پرانی کہاوت ہے کہ افسر کی ''اگاڑی‘‘ سے بچنا ضروری ہے اور جو افسر بناتے ہیں ان کے تو قریب سے بھی نہیں گزرنا چاہیے، جس پر سب لوگ یہ کہتے ہوئے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں کہ
کیمپس تک آتے جاتے ہر ایک منٹ کے بعد جہازی سائز کی گاڑیاں اوران کے پیچھے ڈبل کیبن والے ڈالے دندناتے ہوئے گزرتے ہیں ، اس طرح تو شام تک بھی یونیورسٹی پہنچنا مشکل ہو جائے گا۔ میں انہیں ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب نہر پر ایک نجی کمپنی کے بس ڈرائیور والا واقعہ بھی یاد کراتا ہوں جسے اہم شخصیت کے گارڈز نے اس لیے مار مار کر لہو لہان کر دیا کہ اس نے راستہ نہیں دیاتھا۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ ڈیفنس میں طاہر کے واقعہ سے تین دن قبل میں نے خود دیکھا کہ اچھرہ انڈر پاس سے کوئی آدھا فرلانگ پہلے پولیس کے چھ سات سپاہی ہر موٹر سائیکل سوار کو روک کر ان پر وحشیانہ قسم کا لاٹھی چارج کر رہے تھے۔ میرے سامنے جتنے بھی لڑکوں کو روکا گیا، ان میں سے کوئی ایک بھی ون ویلنگ نہیں کر رہا تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پولیس والے بائیک والوں کو قریب آتے ہی نیچے اتارتے اور پھرڈنڈوں سے ان کی اس طرح پٹائی کی جاتی کہ الامان و الحفیظ ۔ میں جو اپنے ایک بہت ہی کرم فرما دوست کی عیادت کرنے کے لیے پنجاب کارڈیالوجی جارہا تھا، اس بربریت کو دیکھ کررُک گیا۔ میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور ان پولیس والوں سے درخواست
کی کہ یہ آپ کے چھوٹے بھائیوں کی عمر کے ہیں، کچھ تو خیال کریں۔ انہوں نے میری طرف اس طرح دیکھا جیسے ہندوبرہمن پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی طرف دیکھتے ہیں۔میں نے ان کے انچارج سے، جوایک نیم حوالدار لگ رہے تھے، پوچھا کہ آپ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے بڑی رعونت سے کہا کہ یہ ون ویلنگ کرتے ہیں اور ہم ان لفنگوں کو مرنے اور ٹانگیں تڑوانے سے بچا رہے ہیں۔میں نے کہا کہ ان میں سے تو کوئی بھی ون ویلنگ کرتا نظر نہیں آیا ؟ اور آپ جیسے تجربہ کار کو تو سمجھ لینا چاہیے کہ سر پر ہیلمٹ پہننے والے کبھی ون ویلنگ نہیںکرتے۔ میری اتنی بات پر اس نیم حوالدارکا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ایک'' محافظ ‘‘ نے مجھے آہستہ سے کہا ''سر جی افسروں کا حکم ہے ، اپنے تھانے موٹر سائیکلوں اور حوالاتیں ان لڑکوں سے بھر دو‘‘۔جیسے ہی میں سروس روڈ سے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اچھرہ انڈر پاس کے قریب پہنچا ، پاس سے گزرنے والے ایک موٹر سائیکل سوار کی کمر پر لمبا سا بید اس طاقت کے ساتھ مارا گیاکہ اس کی چیخوں سے پورا انڈر پاس گونج اٹھا۔ ساتھ ہی موٹر سائیکل کا بیلنس اس طرح بگڑا کہ بائیک ہچکولے کھانے لگی۔ قریب تھا کہ نوجوان زور سے انڈر پاس کی دیوار کے ساتھ جا ٹکراتا لیکن اچانک غیبی قوت نے اسے سہارا دیا اور ایک المناک حادثہ رونما ہوتے ہوتے رہ گیا۔!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں