وہ لوگ جو70ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی کی سیا ست کے گواہ ہیں، اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اس وقت جب بھٹو صاحب نے غریب عوام کو سیا سی شعور دینے کی کوشش کی تو اس ملک کی زیادہ مذہبی اور سیا سی جماعتیںان کی آمد کو اپنے لئے بد شگون سمجھتے ہوئے اسی طرح اکٹھی ہو کر ان پر حملہ آور ہوئیں جیسے آج ملک کی بارہ سے بھی زائد مذہبی اور سیا سی جماعتیں تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف صف آرا ہیں۔ بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کی نچلے درجے تک کردار کشی کی مہم چلائی گئی ۔ایسا ایسا بہتان اور جھوٹ ان کے سر باندھا جانے لگا کہ گوئبلز بھی کانپ اٹھا، لیکن بھٹو صاحب اکیلے ڈٹے رہے ۔اس و قت صرف ایک مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام ہزاروی گروپ اسی طرح بھٹو صاحب کے ساتھ تھا جیسے آج کی سیا ست میں علا مہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت عوامی تحریک عمران خان کے ساتھ ہے۔ اس وقت کی سیاست کی لڑائی کو سوشلزم اور اسلام کی جنگ بنا دیا گیا تھا تو آج ''اسٹیٹس کو‘‘ ختم کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اسے آئین ، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی عزت اور بقا کی جنگ میں بدل دیا گیا ہے ۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ دونوں ہی اپنے مقاصد پر قائم نہ رہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو سوشلزم پنپ سکا اور نہ ہی اسلامی نظام والے اپنے عزائم پر قائم رہ سکے۔اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اقتدار کا چہرہ مہرہ بنانے اور حکومت کرنے کیلئے طے شدہ نظام نہ تو بھٹو نا فذکرسکے اور نہ ہی جنرل ضیاالحق اس میں کامیاب ہوسکے ؟
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے،جہاں سیا سی معاملات میں ایسے
لوگ بھی سر گرم عمل ہیں، جنہوں نے اول اس کے قیام کی راہ روکی، بعد ازاں اسے دل سے تسلیم کرنے سے انکار کیا، اس کے خاتمے کو اپنی زندگی کا مشن قرار دیا اس کو دو لخت کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا ۔علاوہ ازیں انہوں نے روسی اور بھارتی فوجوں کو دعوت دینے کی دھمکیاں دیتے ہوئے اٹک کے پل تک پہنچنے کا اشارہ دیا، کالا باغ ڈیم کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دیں اورپاکستان کے اندر تخریب کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا...اس کے با وجود اﷲ کا کرم ہوا کہ نیک جذبوں، ولولوں، صلاحیتوں اور توانائیوں سے مالا مال جس قوم نے67 سال پہلے اپنے ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر اپنوں سمیت ہندو اور انگریز جیسے شاطر حریفوں سے ایک جدا گانہ مملکت حاصل کرنے کا معجزہ کر دکھایا۔ افسوس کی بات ہے کہ آج وہی قوم اندرونی طور پر دل گرفتگی، بیزاری اور بے اعتمادی کی شدید کیفیت سے دوچار ہو چکی ہے۔ میں جانتا ہوں اس کے جواز کے طور پر بہت کچھ کہا جائے گا، بہت سی تاویلیں بھی پیش کی جائیں گی لیکن اگر آج یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پاکستانی قوم کی دل شکستگی کا اصل سبب دیا نت دار اور اہل قیا دت سے اس کی محرومی ہے تو اس میں رتی بھر شک کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ جب تک سیا ست کے میدان میں موجود شخصیات اور ان کی جماعتیں اپنے ذاتی، گروہی، جماعتی یا طبقاتی مفاد پرقومی اور عوامی مفاد کو ترجیح نہیں دیں گی، حالات جوں کے توں رہیں گے۔
چند ہفتے قبل سامنے آنے والی ان معلومات نے ہر ایک کو چونکا کر رکھ دیا ہے کہ کروڑوں اور اربوں میں کھیلنے والے غریب عوام کے استعمال میں آنے والی ہر شے پر ٹیکس پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔ان میں سے دس پندرہ فیصد کے سوا با قی یا تو ٹیکس چور ہیں یا ٹیکس گول ہیں اور پھر ستم یہ کہ یہی لوگ قرضوں اور دوسری مراعات کی شکل میں غریب اور قرضوں کی دلدل میں دھنسی ہوئی قوم کا اربوں روپیہ ڈکار لئے بغیر ہضم کر جاتے ہیںاور اپنی ان کرتوتوں پر ہلکی سی ندامت محسوس کرنے کی بجائے اسی قوم کی گردن پر سوار ہو کر کل کو پھر بر سر اقتدار آنے پر خوشحالی کے نعرے لگاتے ہیں۔ کیاآپ نہیں سمجھتے کہ بہت ہو چکا، اب نا ظم اور نظام کا فیصلہ کئے بغیر ملک کی تقدیر کبھی نہیں بدلی جا سکے گی۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج گو نواز گو کے ساتھ ' گو نظام گو‘‘ کا نعرہ بھی مقبولیت حاصل کررہا ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کو نظام کی تبدیلی صحیح معنوں میں مطلوب ہے تو اس کیلئے ضروری ہو گا کہ اقتدار کا چہرہ بھی بدلا جائے کیونکہ دھندلا یا ہوا چہرہ کسی اچھے سے اچھے نظام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر ختم کردیتا ہے۔
گزشہ67 برسوں سے جاری پاکستان کا نظام حکومت، جہاں اس ملک کی بد حالی اور عوام کی زبوں حالی کا اصل سبب ہے ،وہاں اقتدار کا چہرہ بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے ۔جب تک یہ نظام حکومت مکمل طور پر بدلا نہیں جاتا اور اس نظام کو چلانے والا چہرہ روشن نہ ہو اس وقت تک ملکی حالات بدلنے کی کوئی امید پیدا نہیں ہوسکتی ۔ اسلام آباد میں دھرنا دینے والے قائدین اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی جانب سے نظام بدلنے کی بات سے کسی کو انکار تو نہیں لیکن آج تک کسی نے بھی اس نکتے پر توجہ دینے کے متعلق سوچا ہی نہیں کہ اقتدار کا چہرہ بھی نظام حکومت کی طرح بدلنا بہت ضروری ہے ۔ہمارے ہاں اقتدار کے چہرے کی اہمیت پر بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے اور ساری بحث نظام حکومت تک محدود رہتی ہے جبکہ تاریخ کی شہا دت یہ ہے کہ نظام حکومت اور ناظم حکومت دونوں ہی درست ہوںــ تو اطمینان کی صورت پیدا ہوتی ہے ،ورنہ ایک کی خرابی دوسرے کی خوبیوں کو کھا جاتی ہے۔ یہ بات ہم سب کے سامنے ہے کہ خلافت راشدہ کا نظام افراد ہی کے ذریعے مثالی بنا اور پھر ان کے بعد آنے والے افراد ہی کے ہاتھوں تباہ ہوا، مگر جب حضرت عمر بن عبد العزیز بر سر اقتدار آئے تو پورے نظام کی کایا ہی پلٹ گئی اور خلافت راشدہ کے کچھ منا ظر نگاہوں کے سامنے آ نا شروع ہو گئے۔ طرز حکومت کی بات کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہت ایک ناپسندیدہ نظام حکومت ہے مگر یہ بھی سچائی ہے کہ اسی نظام میں سلطان صلاح الدین ایوبی، امیر سبکتگین اور سلیمان اول جیسے حکمران اور ٹیپو سلطان، حیدر علی جیسے بادشاہوں نے بہترین حکومت کی ۔
نظام کی یکسانیت ہمیشہ شخصیات کے فرق سے متاثر ہوئی اور اسی فرق نے عوام کا رویہ متعین کیا ۔آج اگر عوام کی واضح اکثریت تحریک انصاف کی حمایت میں عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اقتدار کے موجو دہ چہروں کو ہم جس چہرے سے بدلنے کے خواہش مند ہیں وہ ان کی خواہشات کا عملی نمونہ بن کر دکھائے گا اور اس میں وہ خوبیاں موجو دہیں جو اقتدار کے موجو دہ چہروں میں عنقا ہیں۔یہ وہ چہرہ ہے جس کا دامن ملکی دولت لوٹنے والوں کی فہرست میں دور دور تک بھی نہیں ہے ۔ایسا ہی چہرہ پاکستان کے عوام کی جانب سے عطا کیے جانے والی اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کا صحیح حق دار ہے۔ یہ وہ اعتماد ہے جو پاکستانی عوام کی غالب اکثریت عمران خان کو سونپنے کا ارادہ کر رہی ہے کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ ان کی امانتوں کو وہ ان کے اصل حق داروں کی جانب لوٹا کر رہے گا اور ووٹ کی صورت میں ان کی دی ہوئی امانت میں کبھی خیانت نہیں کرے گا۔۔۔۔اور امانت اسے ہی سونپی جاتی ہے جس پر بھروسہ اور یقین ہو۔