"MABC" (space) message & send to 7575

پاک ‘بھارت آبی معیشت

سائوتھ افریقہ سے تعلق رکھنے والے جان بریسکو، جو35 سال تک ورلڈ بینک کے آبی ماہر کی حیثیت سے بنگلہ دیش ، ہندوستان اور برازیل میں خدمات انجام دیتے رہے ،نے پاکستان اور بھارت میں دریائوں کی تقسیم سے متعلق سندھ طاس معاہدے کے اثرات پر اپنی ایک غیر جانبدار رپورٹ میں ہوش ربا حقائق بیان کئے ہیں۔ 2006ء میںپاکستان اور بھارت کی آبی معیشت پر دو علیحدہ علیحدہ لکھی جانے والی کتابوں میں مستقبل کے پاک بھارت ممکنہ تصادم کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔ جان بریسکو نے دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے بگلیہار ڈیم پر پاکستانی اعتراض پر انڈس بیسن ٹریٹی کے ضامن کی حیثیت سے ورلڈ بینک کے '' غیر جانبدار ماہر‘‘ کے فرائض بھی انجام دیئے ۔ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پانی کی لہروں کے ساتھ ابھرنے والے سنگین خدشات کو دیکھتے ہوئے مجھے پاکستان اور بھارت کے عوام کی حالت پر ابھی سے ترس آ نے لگاہے اور اگر آنے والے وقت میں معیشت کی ممکنہ ابتری کی جانب دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کی جو بھی قیادت آتی ہے ،اسے اپنی معیشت اور ملک میں آئندہ پیدا ہونے والی غذائی قلت کا کوئی احساس نہیں ۔بھارتی پاکستانیوں کے منہ سے پانی کا ایک ایک قطرہ نچوڑے جا رہا ہے اور یہ کوئی جادو کا کھیل نہیں کہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا بلکہ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔ بھارت خرگوش کی طرح مغربی دریائوں پر جگہ جگہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس تعمیر کیے جا رہا ہے ،جبکہ پاکستان کچھوے کی رفتار سے صرف احتجاج کرنے میں لگا ہوا ہے۔ 
جان بریسکو کہتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان پر گذشتہ کئی سالوں سے آبی حملوں کا آغاز کیا ہوا ہے جس سے پاکستان کے غذائی مورچے تباہ ہوتے جا رہے ہیں اور پاکستان کا ہر نیرو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بانسری بجانے میں مصروف رہتا ہے۔ 1960 ء میں دریائوں کی تقسیم کیلئے امریکہ اورورلڈ بینک کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے مطا بق راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں پر بھارت اور مغربی دریائوں چناب، جہلم اور سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا اور ساتھ ہی دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے بھارت کو صرف اس حد تک اختیار دیا گیا کہ وہ چناب اور جہلم پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بنا تو سکتا ہے لیکن اس پابندی کے ساتھ کہ اس سے نہ تو پاکستان کی طرف آنے والے پانی کی مقدار میں کمی کی جائے گی اور نہ ہی قدرتی طور پر ان دریائوں میں گرنے والے پانیوں کا رخ بدلا جائے گا۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پانی کو اس وقت تک نہیں روکتا جب تک اس کے دروازے بند نہ کئے جائیں۔ چناب اور جہلم پر بھارت کے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی سینچری جس بدنیتی اور تمام عالمی اور اخلاقی ضابطوں کو روندتے ہوئے مکمل کی جا رہی ہے ، اس پر کسی بھی شک کی گنجائش نہیں کہ بھارت پاکستان کی معیشت کو رگڑا دینے پر کمر بستہ ہے اور وہ عالمی قوتیں جو اس وقت بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت پر خاموشی اختیار کئے بیٹھی ہیں ،اس وقت سر پیٹیں گی جب بھارت کی طرف گلا دبائے جانے سانس کے
لیے ہاتھ پائوں مارنے پر مجبور ہوجائے گا۔
کیا اقوام متحدہ بے خبر ہے کہ پاکستان کو جب اپنی فصلوں کی آبیاری کے لیے پانی کی ضرورت ہو گی ،اس وقت پانی کے بہائو کو کم کرنا یا اس کا رخ موڑنا اس کیلئے کس قدر نقصان دہ ہو گا؟بگلیہار کے معاملے میں بالکل یہی صورت حال درپیش ہے جس پرپاکستان کا یہ اعتراض بالکل جائز اور منا سب ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے بگلیہار پر گیٹ نصب نہیں کئے جا سکتے ۔ بھارت کا یہ کہنا کہ اگر یہ گیٹ نہ لگائے جائیںتو کچھ عرصہ بعد جمع ہونے والیSilt کا کیا ہوگا؟ اب اگر چناب پر بھارت کی طرف سے بنایا جانے والا صرف بگلیہار ڈیم ہی ہوتا تو سلٹ کا معاملہ بھارتی ضد کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے حل کیا جا سکتا تھا لیکن یہاں پر تو کشن گنگا، سوالکوٹ، پاکلدل، برسار، دل ہست اور جسپا سمیت ڈیمز کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے ۔پاکستان کو چند برس قبل تجربہ بھی ہوچکا ہے جب بھارت نے پاکستان کا پانی روکنے کی نیت سے بگلیہار پر بے تحاشا پانی ذخیرہ کر لیا تھا؟ پھر وہ جب چاہے گا پاکستان کی طرف بہنے والے اس ذخیرے کو روک کر اس کی معیشت کو تباہی سے دوچار کردے گااور جب دیکھے گا کہ بارشوں کی شدت سے پاکستان سیلابی کیفیت میں ہے تو وہ اپنی طرف آنے والے سیلابی ریلوں کو پاکستان کی جانب دھکیل دے گا ۔
اس بات پر اکثر حیرانی ہوتی ہے کہ جن طاقتوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ کرایا تھا ،کیا وہ دونوں ملکوں کے درمیان نفرت اور دشمنی کی بنیاد سے بے خبر تھے؟ اور پاکستان جسے اپنے بارے میں بھارت کی نیتوں اور نفرتوں کا تجربہ تھا اس نے اس معاہدے کوکیوں اور کس طرح قبول کیا؟۔اس طرح کے معاہدے تو ان ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں جن کے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہ ہو اور اگر یہ معاہدہ دو دوست ممالک کے درمیاں ہوتا تو بھارت پاکستان کو ربیع اور خریف کی فصلوں کیلئے بخوبی اضافی پانی مہیا کرتالیکن یہاں تو سب جانتے تھے کہ دونوں ملکوں میں کشمیر پر پہلی جنگ اور پھرآپس میں بہت سی سرحدی جھڑ پیں ہو چکی تھیں جن کا سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔جان بریسکو کہتے ہیں کہ وہ پانچ سال نئی دہلی میں
رہنے کے بعد پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بھارت میں پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتا ہے کہ موقع ملے تو اس کا کام تمام کر دیا جائے اور اس میں بھارتی میڈیا اپنی حکومت سے بھی دو ہاتھ آگے ہے کیونکہ جب بگلیہار کا معاملہ ورلڈ بینک تک پہنچا تو بھارت کے چوٹی کے اخبارات ٹائمز آف انڈیا، دی ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، انڈین ایکسپریس اور اکنامک ٹائمز اور دیگر تمام اخبارات میں پاکستان کے اعتراضات کو یکسر رد کرتے ہوئے بھارت کے موقف کی حمایت کی جاتی رہی اور مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ ان تمام اخبارات میں ایک ہی طرح کے الفاظ اور ایک ہی قسم کے مندرجا ت دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ '' کسی‘‘ نے ان سب کو ایک ہی فائل تھمائی ہوئی ہے ۔ جان بریسکو کہتے ہیں کہ جب میں نے اس کی بھارت کے ایک مشہور اخبار نویس کونشاندہی کرائی تو اس کا کہنا تھا کہ '' جب سندھ طاس معاہدے کا کشمیر کے ساتھ ذکر آتا ہے تو پھر آپ جانتے ہیں کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور اس پر بھارت کی وزارت خارجہ کی جانب سے تمام اخبارات کو سمجھا دیا جاتا ہے کہ ہم نے کیا کہنا ہے ،کیا لکھنا ہے اور کس طرح لکھنا ہے‘‘۔ پاکستان کی جگہ اگر کوئی بھی دوسرا ملک ہوتا تومجھے یقین ہے کہ وہ چناب اور جہلم پر بھارت کو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ساتھ ہی یہ شق لازمی شامل کراتاکہ: 
''Pakistan would agree only if limitations on India's capacity to manipulate the timing of flows was hardwired.''

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں