کسی شہر کے ایک مالدار تاجر نے بے وقوفی کی حد تک سادہ لوح گھریلو ملازم کو بند پیکٹ دیا اور تاکید کی کہ یہ بہت ہی قیمتی ہے اسے پاس رکھ لو اور اگر تمہیں کوئی ایسا شخص نظر آ جائے جو تم سے بھی زیادہ بیوقوف ہو تو یہ اسے دے دینا۔ اس بات کو کئی سال گزر گئے۔ ایک دن وہ تاجر سخت بیمار ہو گیا۔ دنیا کا بہترین علاج ہونے کے باوجود بیماری بڑھتی چلی گئی۔جب تاجر کو محسوس ہونے لگا کہ اب اس کی زبان بھی اس کا ساتھ دینے سے عاجز آتی جا رہی ہے اور لگتا ہے کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے تو اس نے اپنے اس پرانے اور وفادار ملازم کو اپنے پاس بلا یا اور اس کا ہاتھ پکڑ کرکہنے لگا تم نے میری اور میرے خاندان کی بہت خدمت کی ہے تمہاری ایمانداری مثالی ہے۔ تمہارا جتنا بھی شکریہ ادا کر نا چاہوں کم ہے۔ میرے گھر میں کام کرنے کے دوران تمہیں کبھی مجھ سے کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف پہنچی ہو یا میرے رویہ سے تمہارا دل دکھی ہوا ہو تو مجھے صدق دل سے معاف کر دینا ، ہوسکتا ہے کہ پھر مجھے موقع نہ مل سکے کیونکہ لگتا ہے کہ جلد ہی مجھے تم سب کو چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ ملازم نے مالک کا ہاتھ پکڑ کر آنکھوں سے لگاتے ہوئے کہا حضور کیا آپ کہیں دور جا رہے ہیں؟ تا جر نے بڑی دھیمی اور دکھی سی آواز میں کہا وہیں جا رہا ہوں جہاں ایک دن سب نے جانا ہے۔ ملازم کی سمجھ بات نہ آئی‘ پوچھنے لگا: حضور والا آپ کی واپسی کب ہو گی؟ تاجر بڑی مشکل سے بولا: میرے بھولے بھائی! میں وہاں جا رہا ہوں جہاں جا کر کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ ملازم رہ نہ سکا اور پوچھا‘ حضور! کیا آپ کسی ایسی جگہ جا رہے ہیں جہاں آپ کو کافی عرصہ رہنا پڑے گا! اگر ایسا ہے تو پھر آپ نے اپنی ضروریات اور آرام کیلئے کوئی سامان ساتھ لے جانے کا بھی انتظام کیا ہے؟۔ تاجر نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا نہیں۔ اس سفر کیلئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے‘ میں اپنے کاروبار ، بیوی کے رشتہ داروں اور اپنی اولاد کی دیکھ بھال اور ان کیلئے دولت کمانے، بنگلے بنانے اور دنیا بھر کے سیر سپاٹوں میں مگن رہا مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ ایک دن مجھے اس سفر پر بھی جانا ہے جس کیلئے وہاں کی منا سبت سے سامان کی ضرورت پڑتی ہے۔ نوکر یہ سن کر پریشان ہو گیا اور پوچھا سرکار اور کچھ نہیں تو وہاں کھانے پینے کا تو بندوبست کیا ہی ہو گا کیونکہ آپ کو پتہ تو ہو گا کہ آپ نے وہاں جانا ہے۔ تاجر نے پھر نفی میں سر ہلا دیا جس پر ملازم نے پوچھا جہاں آپ جا رہے ہیں وہاں ہوٹل اور ریسٹو رنٹ تو ہوں گے ہی جب تاجر نے اس پر بھی اپنا سر نفی میں ہلایا تو چند لمحے چپ رہنے کے بعد نوکر کہنے لگا پھر آپ نے وہاں اپنے رہنے کا تو ضرور کچھ نہ کچھ بندوبست کر رکھا ہوگا؟ یہ سن کر اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے اور اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا ، افسوس! کہ میرے پاس وہاں کچھ نہیں۔۔۔۔یہ سننا تھا کہ وہ بھولا اور سادہ لوح ملازم ،جسے سب بیوقوف کہتے تھے، چپ ہو گیا اور کبھی تاجر کے عالی شان محل اس کی سجاوٹ کو دیکھتا اور کبھی آخری سانسیں لیتے ہوئے تاجر کی جانب دیکھنے لگتا۔ کچھ دیر ساکت رہنے کے بعد بولا آپ مجھے ہمیشہ بیوقوف کہہ کر بلایا کرتے تھے جس کا میں نے کبھی بھی برا نہیں ما نا کیونکہ آپ میرا خیال بھی رکھتے تھے لیکن مجھے جو چیز سب سے زیا دہ پریشان کر رہی ہے اور سچ پوچھیں تو مجھے اس پر حیرانی بھی ہو رہی ہے کہ یہ عارضی
گھر، جہاں سے آپ ہمیشہ کیلئے جا رہے ہیں‘ کو بنانے اور پھر اسے سنوارنے کیلئے دنیا جہاں سے قیمتی اور نادر اشیا اکٹھا کرنے میں لگے رہے ۔ اپنے لئے بیگم صاحبہ اور بچوں کیلئے آپ نے نت نئی اور قیمتی گاڑیاں خریدیں ہر سال آپ گاڑی کے ماڈل بدلتے رہتے تھے۔آپ اپنے گھر کے گارڈن کیلئے دنیا کے ہر کونے سے نت نئے پھول اور پودے لے کر آیا کرتے تھے اور میں اکثر دیکھا کرتا تھا کہ آپ اپنے اس باغ کو سجانے کیلئے روزانہ مالیوں کو ڈانٹتے تھے ذرا کسی پھول یا پودے کی کوئی شاخ مرجھائی ہوئی دیکھتے تو سب کی شامت آ جاتی۔ یہی حال آپ کا اپنی فیکٹریوں دکانوں اور قیمتی گاڑیوں کے بارے میں ہوا کرتا تھا۔ آپ کبھی اپنے سوٹ پر شکن بھی نہیں پڑنے دیتے تھے۔ آپ نے اپنے اور گھر کے افراد کے بیڈ روم کا سامان بھی دنیا کے کونے کونے سے منگوایا تھا جب بھی آپ گھر آتے تو کھانے پینے کا اس قدر سامان لے کر آتے کہ ہمیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھااور یہ سب کچھ آپ اس گھر کیلئے کرتے رہے ہیں جس کے بارے میں آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ عارضی ہے اور اسے جلد ہی
چھوڑ کر کہیں ایسی جگہ جانے والے ہیں جہاں آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہنا پڑے گا ۔ ڈرتے ڈرتے عرض کر رہا ہوں کہ کیا یہ بیوقوفی اور حماقت کی انتہا نہیں کہ وہ جگہ جہاںآپ نے ہمیشہ کیلئے نہیں رہنا تھا اس میں رہنے کیلئے آپ دنیا بھر سے سامان اکٹھا کرتے رہے اور گرمیوں سردیوں سے بچنے کیلئے ائر کنڈیشنڈ اور نرم ملائم قیمتی کمبل اور کپڑے اکٹھے کرتے رہے اور وہ جگہ جہاں آپ کو ہمیشہ رہنا ہے ا س کیلئے آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے وہاں کی گرمی اور سردی سے بچنے کیلئے کھانے پینے کیلئے سونے بیٹھنے کیلئے آپ نے ذرا بھی تیاری نہیں کی۔
یہ کہتے ہوئے وہ تاجر کے کمرے سے باہر نکلا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کئی سال قبل تاجر کا دیا جانے والا وہ قیمتی پیکٹ تھا جو اس کے مالک نے اسے اپنے سے بھی زیا دہ بیوقوف شخص کو دینے کا کہا تھا۔۔۔۔۔تاجر کے وفادار اور سادہ لوح گھریلو ملازم نے وہ پیکٹ تاجرکی بڑھاتے ہوئے کہا: جناب والا مجھے تو اس وقت تک آپ سے زیا دہ بیوقوف شخص کوئی اور نظر نہیں آیا۔۔۔ براہ کرم یہ قیمتی پیکٹ جو آپ نے مجھے اپنے سے بھی بڑے بیوقوف شخص کو دینے کیلئے سونپا تھا۔۔۔اسے آپ کے حوالے کر رہا ہوں!!