"MABC" (space) message & send to 7575

وہ ایک شخص

تحریک انصاف کے 30 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسہ عام نے ہر طرف ایک ہلچل سی مچا کر رکھ دی اور جناب نواز شریف اور ان کے اتحادی چند دن سے عمران خان کے خلاف وہ تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں کہ ہر طرف گرد اڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ایک جانب اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن تو دوسری طرف سے شیر پائو اور اسفند یار ولی خان اور تیسری جانب سے پیپلز پارٹی اور مغرب نواز این جی اوز۔ وہ چیخ پکار مچی ہوئی ہے کہ کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ ان آوازوں میں اسفند یار ولی خان کی آواز سب سے اونچی ہے۔ فلکِ پیر کیا عجب نظارہ دکھا رہا ہے کہ آج سے46 سال قبل‘ جب اس ملک کے غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا‘ جب انہیں ظلم کے خلاف بولنا تو دور کی بات اپنی مرضی سے سانس لینے کی بھی اجا زت نہیں تھی‘ اس وقت بھٹو کی شکل میں ان کے حق میں ایک آواز گونجی اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دینے کے بعد عملی سیا ست کے میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا تو ان کے سامنے رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے؛ چنانچہ وہ کچھ عرصہ کیلئے ملک سے باہر چلے گئے لیکن جب دوبارہ واپس پاکستان پہنچے تو اپنے ساتھ پیپلز پارٹی کے نام سے ایک نئی سیا سی جماعت اور اس کا منشور لے کر آئے۔ انہوں نے اپنی علیحدہ سیا سی جماعت بنانے کا اعلان کیا‘ تو ایک طرف حکومتِ وقت کی بے پناہ طاقت تھی اوردوسری طرف پاکستان کی اس وقت کی ہر سیا سی جماعت ان کو اپنے لیے زبردست خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان کے مدمقابل کھڑی تھی۔ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف تنہا پیپلز پارٹی تھی اور اس کے مقابلے میں اس وقت کی چھوٹی بڑی سات سے زائد سیاسی اور مذہبی جماعتیں‘ ان کا ساتھ دینے والی مضبوط بیوروکریسی اور میڈیا کی طاقت تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ واقعہ گلبرگ میں اپنی پارٹی‘ جس کا نام پاکستان پیپلز پارٹی تجویز کیا گیا‘ کا پہلا کنونشن منعقد کیا۔ اس کنونشن اور اس کے بعد باغ جناح میں ہونے والی ایک تقریب میں بھٹو صاحب نے حاضرین کی قلیل تعداد کو سامنے بیٹھے ہوئے دیکھ کر اپنی طویل تقریر میںایک تاریخی جملہ کہا تھا '' آج پیپلز پارٹی کی افتتاحی تقریب میں ایک سو سے کچھ ہی زیا دہ لوگ نظر آ رہے ہیں تو کیا ہوا‘ بہت جلد وہ وقت بھی آنے والا ہے جب میں ایک لاکھ کے مجمعے سے خطاب کر رہا ہوں گا۔‘‘جب پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کے خلاف میدان میں اترے تو آج کے وزیر اطلاعات کی طرح اس وقت کی مسلم لیگ کنونشن کے ایک وزیر بھٹو صاحب پر زبردست اور ناروا قسم کی تنقید کیا کرتے تھے بلکہ ان کی سیا سی تحریک کو'' بلبلہ‘‘ کے نام سے تشبیہ دیا کرتے تھے لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ وہی وزیر بھٹو صاحب سے ان کی جماعت میں شمولیت کیلئے درخواستیں کرتے دیکھے گئے۔ 
چودہ اگست کو اسلام آباد میں پہنچنے والے لانگ مارچ اور پھر ڈی چوک میں دیئے جانے والے تحریک انصاف کے دھرنے کے جواب میں ''پارلامنٹ‘‘ کے مشترکہ اجلاس میں اور اس کے بعد وقفوں وقفوں سے عمران خان پر کیے جانے والے زبان و بیان کے حملوں کو دیکھ کر وہی1968-71ء تک کے مناظر ذہن میں تازہ ہونے لگتے ہیں‘ جب ان کے پورے خاندان کی کردار کشی کی جاتی تھی۔ وہی حملے اور جملے اب عمران خان کے خلاف استعمال کرائے جا رہے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ میڈیا سے متعلق وہ لوگ جو بھٹو کو نہ جانے کن کن القابات سے نوازا کرتے تھے‘ وہی اب عمران خان کے خلاف سر گرم عمل ہیں۔ اس وقت بھی سوائے مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم کے ،سب مذہبی جماعتیں ذوالفقار علی بھٹو کو کبھی بھارت تو کبھی اسرائیل کے ایجنٹ کے نام سے پکارا کرتی تھیں‘ آج عمران خان کی تحریک انصاف کے مقابلہ میں ملک کی تمام سیا سی جماعتوں نے اپنے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے بالکل اسی طرح اکٹھ کیا ہوا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی تمام سیا سی اور مذہبی جماعتیں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسی طرح ایک جان ہو کر خم ٹھونکے کھڑی نظر آتی تھیں!
ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت اس ملک کے ہر غریب طبقے کو‘ جن میں وکلاء، سرکاری ملازمین، مزدور، طالب علم، محنت کش، کسان اور ہاری شامل تھے‘ کہا تھا کہ میں تم سب کو عزت سے جینے کاحق دلوانے کیلئے میدان سیا ست میں اترا ہوں‘ ورنہ میں چاہتا تو ایوب خان کی کابینہ میں پہلے کی طرح دنیا کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوتا رہتا لیکن میں اس ملک کے غریب عوام کی قسمت بدلنے کیلئے ان سب کے مقابلے میں آیا ہوں اور اب میرا جینا مرنا اس ملک کے غریب عوام کیلئے ہو گا۔ میں اس وقت تک کوشش کر تا رہوں گا جب تک آپ کے چھینے ہوئے حقوق آپ کی جھولیوں میں نہیں ڈال دیتا ۔پھر ملک میں جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف خون ریز تحریک شروع ہو گئی۔ چند ماہ بعد اس تحریک کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء نافذکر دیا گیا اور ملک کی باگ ڈور جنرل یحییٰ خان نے سنبھال لی۔
آج اگر عمران خان کی تقاریر کو سامنے رکھیں تو وہ وہی کچھ کہتے نظر آتے ہیں جو کل بھٹو نے کہا تھا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اس ملک کے گیارہ کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب تک میں ان غریبوں کی بنیادی ضروریات کا بندوبست کرتے ہوئے انہیں باعزت شہری کے طور پر سامنے نہیں لے آتا‘ میری جدو جہد
جاری رہے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تقریباً ایک ماہ قبل پشاور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مرکزی لیڈر خورشید شاہ نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا تھا کہ عمران خان میرے آئیڈیل تھے۔ اگر بھٹو صاحب کی ذات کا معاملہ نہ ہوتا تو میں اس وقت تحریک انصاف میں شامل ہو چکا ہوتا لیکن چند روز سے ڈی چوک میں عمران خان کی تقاریر سننے کے بعد دل ٹوٹ سا گیا ہے۔ کاش خورشید شاہ صاحب نے بھٹو شہید کی تقاریر سنی ہوتیں تو ان کا د ل عمران خان کی باتوں پر کبھی نہ ٹوٹتا؟ بھٹو شہیدکہا کرتے تھے کہ اس آئین کا کیا فائدہ جو اس ملک کے کچلے ہوئے عوام کو ان کے حقوق نہ دے سکے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ بھٹو شہید لاہور تشریف لائے۔ اس وقت جنرل یحییٰ خان کی جانب سے تیار کیے جانے والے آئین کا اخبارات میں بہت چرچا تھا۔ ایئر پورٹ سے ایک بہت بڑے جلوس کی صورت میں انہیں جی پی او لایا گیا‘ جہاں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ''آئین کوئی چپلی کباب نہیں ہے جس سے اس ملک کے غریب اور بھوکے عوام کا پیٹ بھر جائے‘‘ اگر جناب خورشید شاہ کو میری اس بات پر شک ہے تو وہ لاہور میں پیپلز پارٹی کے باقی رہ جانے والے کسی بھی کارکن یا اس وقت کے اخباری رپورٹر سے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ خورشید شاہ نے حبیب جالب مرحوم کا یہ شعر تو اپنے نئے دوست شہباز شریف کی زبان سے ضرور سنا ہو گا ؎ 
ایسے دستور کو صبح بے نور کو 
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں