"MABC" (space) message & send to 7575

چپلی کا بکل اور اماں تابو

وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید صاحب نے عمران خان کے پائوں میں پہنی ہوئی چپل کے بکل کے بارے بھی انکشاف کرتے ہوئے سب کے ہوش اڑا دیئے کہ اس کی قیمت کااندازہ کوئی جوہری بھی نہیں لگا سکتا۔ ( چاچا نور الدین چپل بنانے والے کی اﷲ حفاظت کرے)۔ لگتا ہے کہ اب حکمران جماعت کا حکومت میں رہنے کا اخلاقی جواز ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ پوری حکومت کے پاس عمران خان کے بارے میں اس کی چپل کے بکل کے سوا کہنے کو کچھ نہیں رہا ۔
اس پریس کانفرنس کو دیکھنے اور بار بار سننے کے بعد آج سے کوئی 72 سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم جب پورے زوروں پر تھی اور جرمنی کے اتحادی جاپان کی فوجیں تاج برطانیہ کے زیر تسلط علاقوں کی جانب بڑھتی چلی آرہی تھیں تو انگریز مختلف ترغیبوں سے ہندوستان بھر کے نوجوانوں کو گروہ در گروہ فوج میں بھرتی کر نے لگے۔ جب دوسری جنگ عظیم کو تین سال سے بھی زیا دہ کا عرصہ گذر گیا تو جرمنی اور جاپانی افواج کے تابڑ توڑ حملوں سے انگریز حکومت گھبرا گئی۔ ایشیا اور خاص طور پر بر صغیر کی طرف جاپانی فوجوں کی سمندر اور خشکی کے راستے پیش قدمی انگریزی بادشاہت کیلئے بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی تھی جس کا مقابلہ کرنے کیلئے انگریزوں نے ہندوستان میں بھرتی کی کوششیں دو چند کر دیں اور گدی نشینوں، زمینداروں، جاگیر داروں اور ان کے زیر اثر چھوٹے چھوٹے چوہدریوں کے
ذریعے لوگوں کو فوج میں بھرتی کی ترغیب دینی شروع کر دی، بلکہ اگر کوئی اپنے علاقے سے پانچ سے دس جوان فوج میں بھرتی کرواتا تو اسے ایک سے دو مربع زمین بطور انعام دی جاتی۔ اسی طرح کی ایک مہم کے دوران کسی نے انگریز حکومت کے ایک ڈپٹی کمشنر کو اطلاع دی کہ جہلم کے ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک تندور والی بوڑھی عورت ہے جو اپنے کردار اور نیک دلی کی وجہ سے پورے علا قے میں بہت ہی عزت کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ عورتیں تو ایک طرف یہاں کا ہر چھوٹا بڑا مرد بھی اپنے کسی کام کے سلسلے میں اس سے مشورہ کئے بغیر نہیں رہتا۔ کوئی بھی فرد، تندور والی اماں جسے '' تابو تندور والی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، کے علاقے میں بھوکا نہیں رہتا کیونکہ وہ انہیں اپنے پلے سے روٹی دیتی ہے اور اپنے تندور پر رش ہونے کے با وجود کبھی کسی سے تلخ لہجے میں بات نہیںکرتی اور ارد گرد کے دیہات کی عورتیں تو اسے اپنی ماں کے برابر درجہ دیتی ہیںاور اپنی ہر مشکل میں اس سے رہنمائی بھی لیتی ہیں۔ گھروں میں پیدا ہونے والے اختلافات ختم کرانے میں بھی تندور والی اماں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے اور ہر کوئی اس کے فیصلے اور نصیحت پر عمل کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کی نیک دلی کی وجہ سے کوئی بھی اس کی نا راضگی کو اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر کو بتایا گیا کہ اگر اس تندور والی اماں کی خدمات حاصل کر لی جائیں تو یہاں سے ہمیں ایک سو سے بھی زیا دہ نوجوان آسانی سے بھرتی کیلئے مل جائیں گے۔
جب انگریز افسر کویہ اطلاع ملی تو اس نے علا قہ مجسٹریٹ ، تحصیلدار اور متعلقہ تھانیدار کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر تندور والی اماں کے گائوں جائیں اور اسے علاقے کے نوجوانوں کو جرمن اور جاپانی فوجوں کے خلاف لڑنے کیلئے انگریز کی فوج میں زیا دہ سے زیا دہ بھرتی کرانے کا کہیں۔اماں تابو کی کٹیااور تندور ساتھ ساتھ ہی تھے۔ علاقہ تھانیدار نے علی الصبح وہاں پہنچ کر ڈیرے ڈال دیئے کیونکہ علاقہ مجسٹریٹ تحصیلدار سمیت وہاں پہنچ رہے تھے ۔گائوں کے نمبردار کو بھی افسران کے کھانے پینے کی مصیبت
پڑی ہوئی تھی۔ جب مائی تابو کی کٹیا میں جا کر تھانیدار اور نمبردار نے بڑے ادب سے سلام کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ وہ اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہن لے کیونکہ ابھی تھوڑی دیر تک مجسٹریٹ اور تحصیلدار صاحب اسے سلام کرنے کیلئے آ رہے ہیں تو وہ حیران تو کیا ، پریشان سی ہو کر رہ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ بے چاری ایک سادہ لوح اور غریب دیہاتی محنت کش عورت تھی ۔وہ تو کبھی نمبردار کی بیوی کے برابر بھی نہیں بیٹھی تھی، کہاں تھانیدار اس کو سلام کر رہا تھا۔ وہ بے چاری جس کیلئے پولیس کے سپاہی اور پٹواری کا نام ہی حکومت تھا، اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تحصیلدار اور مجسٹریٹ کیا ہوتا ہے۔
اماں نے نمبردار اور تھانیدار سے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اس سے جانے انجانے میں وہ کون سی خطا ہو گئی ہے کہ انگریز بادشاہ اس کے تندور پر آ رہا ہے۔ تھانیدار نے کہا، اماں مجھے کچھ پتہ نہیں ہے۔ ابھی تھوڑی دیر بعد بڑے افسر آئیں گے تو وہی بتائیں گے، بس تم نے ان سے بڑی عزت سے پیش آنا ہے۔کوئی ایک گھنٹے بعد گائوں میں ہر طرف خاموشی چھا گئی۔پتہ چلا کہ
انگریز افسر اماں تابو سے ملنے کیلئے پہنچ گئے ہیں۔چند لمحوں بعد ایک سرکاری جیپ تندور والی کی کٹیا کے باہر آ کر رکی جس سے مجسٹریٹ اور تحصیلدار اتر کر تھانیدار کی معیت میں اماںتابو کی کٹیا کی جانب بڑھے۔ ان کو اپنی کٹیا کی طرف بڑھتے دیکھ کر مائی تابو بھاگ کر باہر نکلی اور دونوں ہاتھ باندھ کر افسروں کے آگے کھڑی ہو گئی۔مجسٹریٹ نے مائی تابو سے اس کا حال چال پوچھنے کے بعد کہا کہ تم روزانہ سنتی تو ہو گی کہ جرمنی اور جاپان کی فوجوں نے انگریز سرکار پر حملہ کیا ہوا ہے ۔ انگریز صاحب بہادر نے مجھے خاص طور پر تمہارے پاس ا س لیے بھیجا ہے کہ تم جرمنی اور جاپان کی فوجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انگریز کی مدد کرو اور اس کیلئے یہاں کے نوجوانوں کو انگریز کی فوج میں بھرتی ہونے کیلئے راضی کرو!
چند منٹ تک تو تندور والی اماں کچھ نہ سمجھتے ہوئے چپ رہی اور جب تھانیدار نے دوبارہ مجسٹریٹ کی کہی ہوئی بات دہرائی تو تندور والی اماں نے تھانیدار کی جانب دیکھتے ہوئے کہا '' پتر سنا ہے کہ انگریز کی بادشاہی ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگر اب اس کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ اسے اپنی حکومت کی حفاظت کیلئے میرے جیسی ایک چھوٹی اور عام سی تندور والی کی کٹیا پر آنا پڑ گیا ہے تو پھر میری بات سن لو کہ اب انگریز کی حکومت کا چل چلائو ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں