یکم فروری 1972ء کو بھارت میں ضمیرکی آواز پر سچ بولنے والے جے پرکاش نرائن نے کہا تھا '' بھارتی حکومت آج یا کل جو کچھ بھی کہتی رہے کشمیر میں کبھی بھی صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوئے اور نہ ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ جب بھی ایسا ہو ا تونئی دلی کے حامی شکست فاش سے دو چار ہو کر رہ جائیں گے جس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ مقبوضہ جموںکشمیر کی بہت بڑی اور واضح اکثریت بھارت کے ساتھ رہنے کو ہر گز ہرگز تیار نہیں‘‘۔ آج بھی بھارتی راج ہٹ کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں25 نومبر سے 20 دسمبر تک بھارتی آئین کے تحت جو انتخابات کرائے جا رہے ہیں وہ اس ڈھونگ کے سوااو ر کچھ بھی نہیں کیونکہ ان کی بنیاد ہی غلط ہے اور بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر میں انتخابات خود بین الاقوامی قانون اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔ 1951ء میں ہونے والے پہلے ریا ستی انتخابات کو سامنے رکھیں تو اس سے بڑا انتخابی فراڈ کبھی دیکھنے میں ہی نہیں آیا کیونکہ اس میں ریٹرننگ افسران کی جانب سے جیتنے والے کے حاصل کردہ ووٹوں کو ہارنے والے سے تبدیل کر کے نتائج کا اعلان کر دیا گیاتھا اور یہ کمال کا عجب الیکشن تھا کہ اسمبلی کی کل 75 نشستیں بھارت سرکار نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر ''مکمل سویپ‘‘ کرتے ہوئے جیت لیں اور ان میں سے صرف دو نشستوں پر امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ باقی سب بلامقابلہ جیت لی گئیں اور سارا مقبوضہ جموں کشمیر منہ دیکھتا رہ گیا۔۔۔ ان انتخابات پر بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جوا ہر لال نہرو کی جانب سے 18 اکتوبر1951ء کو ایک نہایت ہی مضحکہ بیان جاری کیا گیا کہ‘‘ ان انتخابات میں عوام کی یک طرفہ رائے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں فوج، پولیس اور ریاستی دہشت گر دی کے سائے میں 1957ء میں نئی دلی کی بھارت سرکار نے دوسرے عام'' انتخابات ‘‘ کرائے تو ان میں ریا ستی اسمبلی کی کل75 نشستوں میں سے نئی دلی سرکار کے 68 امیدوار کامیاب کرائے گئے جن میں سے43 امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوئے مقبوضہ کشمیر میں منعقد کرائے جانے والے تیسرے '' عام انتخابات جو1962ء میں منعقد کرائے گئے‘ ان میں نئی دلی سرکار کے75 میں سے70 نشستوں پر اس طرح کامیابی حاصل کی کہ جیتی جانے والی39 نشستوں پر کسی دوسرے کو الیکشن میں حصہ لینے کی ہمت ہی نہ ہوئی اور پھر اس سے آگے مقبوضہ جموںکشمیر میں بھارتی تسلط کا تماشہ دکھانے کیلئے1967ء میں کرائے جانے والے '' انتخابات‘‘ میں بھارتی کی نئی دلی سرکار نے75 میں سے جن 60 نشستوں پر اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے، ان میں 55 نشستوں پر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی میدان میں ہی نہ آ سکا۔
1987ء میں کرائے جانے والے انتخابات میں مقبوضہ کشمیر میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے انتخابات میں بھر پور حصہ لینے والی تنظیم وادی میں83 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے بھر پور کامیابی حاصل کر رہی تھی کہ اچانک وہاں کے ریٹرننگ افسران نے بھر پور تماشہ کرتے ہوئے ان تمام حلقوں کے نتائج ہی تبدیل کر کے رکھ دیئے۔ آج کے جس قدر بھی حریت پسند کشمیری رہنمائوں کے نام سامنے آتے ہیں تو ان میں سے اکثر نے یا تو خود ان انتخابات میں حصہ لیا یا وہ ان انتخابات میں ایم یو ایف کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے بھر پور جدو جہد کرتے دکھائی دیئے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دیوالی منانے والے بھارت میں کانگریس سے لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی تک دنیا کو
یہی تاثر دیتے رہے کہ یہ انتخابات ہی حقیقی رائے شماری ہیں جن سے کشمیریوں کی مرضی کا اظہار ہو تا ہے ۔شاید ان سب کا دھرم یہی بن چکا ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں عوام کی رائے دہی الیکشن سے نہیں بلکہ ہمیشہ اپنی مرضی کی سلیکشن سے ہی جانچی جاتی رہے گی۔ 1951-57ء سے مقبوضہ جموں کشمیر کے گورنر بی کے نہرو نے1997ء میں اپنی یاد داشت پر مبنی کتاب میں صاف صاف لکھا ہے کہ ''نئی دلی کی بھارتی حکومتوں نے کشمیر کے ہر الیکشن میں جی بھر کے اس طرح دھاندلیاں کیں کہ انہیں انتخابات کا نام دینا ہی انتخابات کی توہین ہے‘‘۔ اس ضمن میں سب سے دلچسپ کہہ لیں یا باعث شرم کہ جب 1962ء میں مقبوضہ جموں کشمیر کے انتخابات میں بخشی غلام محمد تمام نشستوں پر ''کامیاب ‘‘ہو گئے تو وزیر اعظم پنڈت نہرو نے اسے مارچ1962ء میں خط میں لکھا کہ اگر تم چند نشستیں ہار جاتے تو ان انتخابات کی کچھ عزت رہ جانی تھی جس پر بخشی غلام محمد کا دلچسپ تبصرہ تھا کہ ''حضور والا ،سب کچھ تو آپ کے بھیجے جانے والے ''امن بریگیڈ ‘‘کے لوگوں نے کیا دھرا ہے‘‘۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بخشی غلام محمد کو 1963ء میں ہی وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونا پڑ گیا۔ اس سلسلے میں ہندو کشمیری پنڈت پریم
ناتھ نے،جو کہ ایک معروف صحافی کی حیثیت سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں‘ 1978ء میں اپنے مضمون میں ایک خوبصورت فقرہ لکھا تھا ''نئی دہلی میں بیٹھی ہوئی بھارت سرکار جنہیں انتخابات کا نام دیتی ہے یہ تو مکمل خرافات ہیں‘‘۔
24 اگست2002ء کے نیو یارک ٹائمز میں ایمی والڈمین نے اپنے مضمون میں تسلیم کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں 1989ء کے انتخابات میں ہونے والی شرمناک دھاندلی نے وادی میں بھارت کے خلاف نو جوا نوں کی مسلح تحریک کو ابھارا جس میں 2002ء تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری نوجوان بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج کی دہشت اور بر بریت کے سائے میں بھارتی آئین کے تحت کرائے جانے والے ان انتخابات کا سہرا ایک بار پھر ریٹرننگ افسران کے سر پر باندھنے کی تیاریاں ابھی سے ہی دیکھنے میں آ رہی ہیں اور انتخابات کے نتیجے میں آج کی کشمیر کی نئی نسل یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گی کہ'' گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو پھر کنستر کاٹنے کے علا وہ اور کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا‘‘۔۔۔۔ رہی بھارتی جمہوریت کے راگ الاپنے والوں کی بات ،تو ان کو جے پرکاش نرائن کا کئی سال قبل بولا ہوا وہ تاریخی جملہ سامنے رکھنا ہو گا ''جب بھی کشمیر میںصاف اور شفاف انتخابات منعقد ہوئے تو نئی دلی کی حامی جماعتیں منہ کے بل گری نظر آئیں گی‘‘...!!