"MABC" (space) message & send to 7575

جمہوریت اور آئین سے محبت

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملٹری اکیڈیمی کاکول میں130 ویں پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں جہاں کشمیر اور ملکی سلامتی بارے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک واضح پالیسی بیان دیا‘ وہاں دکھ بھرے لہجے میں یہ بھی کہا کہ ''ہم جمہوری قدروں پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری نیتوں پر کیا جانے والا شک ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے‘‘۔ جنرل راحیل کے خطاب کا یہ حصہ اس گفتگو کے تناظر میں تھا جو حکومت کے ساتھ کسی نہ کسی حالت میں وابستہ سیا ستدان کرتے چلے آ رہے ہیں اور جس کا افسوسناک مظاہرہ انہوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کیا ۔ جمہوریت اور آئین کی پاسداری کے نام پر ''پارلامنٹ‘‘ میں گرجنے برسنے والوں میں محمود خان اچکزئی کے علاوہ اے این پی‘ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کے لوگ سب سے آگے آگے تھے۔ اگر آئین اور جمہوریت کی بات چل نکلی ہے تو محمود خان اچکزئی کو1990ء کا وہ عرصہ یاد تو ہو گا جب وہ لورالائی، زیا رت، کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے حصوں میں افغان مہاجرین کوپاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا کر بانٹ رہے تھے! کیا پاکستان کا کوئی ایک بھی خفیہ ادارہ یا اس وقت کی کوئٹہ کی انتظامیہ اس حقیقت سے انکار کرنے کی ہمت اور جرأت رکھتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ان افغان مہاجرین‘ جنہیں اچکزئی صاحب نے پاکستان کے شناختی کارڈ جاری کرائے‘ میں سے کئی بلوچستان پولیس اور دوسرے اہم انتظامی اداروں میں بھرتی کیے گئے ؟۔کیا بتایا جا سکتا ہے کہ وہ سب کچھ‘ جو افغان مہاجرین کو پاکستانی پاسپورٹ اور شنا ختی کارڈ دیتے ہوئے کیا گیا تھا‘ آئین کی کس شق کی رو سے درست تھے؟
کیا یہ بھی بتانا پڑے گا جب اکتوبر2001ء میں امریکی حملے کے بعد طالبان کی افغان حکومت ختم ہو گئی تو حامد کرزئی‘ جو پاکستان میں چودہ سال تک رہتا رہا ‘کو کون قندھار کے راستے کابل تک پہنچانے گیا تھا؟ کرزئی کے اسلام آباد میں روم میٹ، جو خرطوم میں اقوام متحدہ کے مشن ہیڈ رہے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی مکمل بھارتی کٹھ پتلی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ افغان صدارت سے فارغ ہونے کے بعد وہ سب پہلے بھارت یاترا پر جا چکے ہیں۔ 
اچکزئی اور بہت سے دوسرے حضرات سمیت اے این پی کے اراکین پارلیمنٹ کی تقریریں سنتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارے بعض قومی اداروں سے کوئی بہت ہی پرانا حساب چکایا جارہا ہے۔ شاید وہ جانتے تھے کہ ایسا موقع روز روز نہیں ملا کرتا۔ ایک صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز ہی میں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنے والوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ''جب وہ یہاں آ رہے تھے تو ایسا لگا کہ بہادر شاہ ظفر کے محل کے باہر ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں خیمہ زن ہیں‘‘۔ اسی جماعت کے ایک اور صاحب نے تو اپنی تقریر میں پختونوں کے نام پر اس قدر آنسو بہائے کہ وہ بھی انہیں روتا ہوا دیکھ کر شرمسار ہو گئے ہوں گے۔ جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کسے پسند نہیں؟ لیکن یہ کچھ عجیب نہیں لگتا کہ کچھ لوگ‘ جو خود کو جمہوریت اور آئین کا پرستارکہتے نہیں تھکتے‘ جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کی ساری اصلیت باہر آ جاتی ہے۔ 
لوگ ابھی بھولے تو نہیں ہوں گے، جب اسی ملک کے ایک شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر 12 اپریل2010ء کی دوپہر دس افراد پولیس کی گولیوں سے چھلنی کر دیے گئے تھے‘ جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے لیے علیحدہ صوبے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دس افراد جو فائرنگ سے شہید ہو گئے ان کی مائیں اپنے بیٹوں 
کے قتل عام پر بین کرتی پھر رہی تھیں اور ظالموں کی کلاشنکوفوں کی بارش سے سڑکوں پر جگہ جگہ جمے ہوئے اپنے جگر گوشوں کے خون کو چوم رہی تھیں۔ ہزارہ کی بیوہ ہونے والی سہاگنوں کے گھروں میں ابھی تک ماتم کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ ابھی تک اس قتل عام سے یتیم ہونے والے بچوں کی چیخوں سے آسمان پھٹ رہا ہے۔ جب ان کی گولیوں کی بوچھاڑ سے 100 سے زائد زخمی ہسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے تو 2 مئی2010ء کو کراچی کے ساحل سمندر پر ایک جشن فتح منایا گیا۔ یہ جشن دیکھ کر ایسا لگا کہ اس سے چند ہفتے پہلے گولیوں کی بارش کر کے 1946ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی آواز پر پاکستان کے حق میں ووٹ دینے والے ہزارہ کے عوام اور ان کی اولادوں کو کبھی نہ بھولنے والا سبق سکھایا جا رہا تھا۔ ہزارہ صوبے کی بات کرنے والوں سے آج تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ نہتے عوام پر کلاشنکوفوں کے برسٹ برسانے والے کون تھے؟۔ انہیں کون لے کر آیا تھا اور وہ کہاں سے آئے تھے؟ پرویز خٹک اور عمران خان سے ان شہداء کی روحیں سوال کرتی ہیں کہ کیا خیبر پختونخوا کی حکومت ایبٹ آباد کے اس قتل عام کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی؟
پاکستان بنتے ہی پختونستان کا لفظ سرحد کے پٹھانوں کے ذہنوں میں ڈالنے والے ہر دفعہ مایوس ہوتے رہے کیونکہ غیرت مند پختونوں کو اس نام سے نہ جانے کیوں ایک مخصوص قسم کی بو محسوس ہوتی تھی‘ اس لیے پختونستان کا لفظ سنتے ہی غیور پٹھان اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیتے تھے۔ پھر یک لخت پلٹا کھایا گیا اور پختونستان کو پختون خوا سے بدل دیا گیا لیکن لوگ سمجھ گئے کہ بوتل وہی ہے‘ کمپنی بھی وہی ہے‘ اس کے تیار کرنے والے بھی وہی ہیں اور اس میں موجودچیز بھی وہی ہے‘ اس لیے یہ نام بھی نہ چل سکا اور پھر کچھ لوگوں کی مداخلت پر ''خیبر پختونخوا‘‘ نام رکھا گیا جسے انہوں نے بے دلی سے قبول تو کر لیا لیکن رنجش نہ گئی جس کا بدلہ وہ جب بھی موقع ملتا ہے‘ لیتے رہتے ہیں۔ 
عمران خان نے اپنے تیس نومبر کے اسلام آباد کے جلسۂ عام میں جب سولہ دسمبر کو ملک بھر میں پہیہ جام کی اپیل کی تو شور مچا دیا گیا کہ یہ تو سقوط ڈھاکہ کا دن ہے لیکن عمران خان کے یہ مخالفین‘ جو آج خان ولی خان کی جماعت سے کندھا ہی ملائے ہوئے نہیں بلکہ ان کے بازو لہراتے ہوئے نعرے لگا رہے ہیں‘ کیا بھول چکے ہیں کہ سولہ دسمبر2009ء کی صبح قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری لیے بغیر ہی صوبہ سرحد کی سرکاری عما رتوں پر پختون خوا کے بورڈ لگا دیے تھے؟ کیا یہ ملک کے آئین کی خلاف ورزی نہیں تھی؟ اس وقت ان کے دلوں میں ملک کی سلامتی اور پارلیمنٹ کی عظمت کا خیال کیوں نہ آیا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں