"MABC" (space) message & send to 7575

قرض

اﷲ کی رضا کے لیے ، اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کرنے والے شہیدوںکے سب گناہ اور خطائیں معاف کردی جاتی ہیں لیکن اگر ان پرکسی کا قرض واجب الادا ہو تو وہ معاف نہیں ہوتا، اس کی ادائیگی لازمی ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے عطا کردہ دین میں راہ خدا میں جان دینے کرنے والے شہید کی بڑی قدرو منزلت ہے لیکن اگر اس کے ذمے کسی کا قرض واجب الادا ہے تو یہ حقوق العباد کے زمرے میں آنے کی وجہ سے عدم ادائیگی کی صورت میں قابل معافی نہیں ہوتا تاوقتیکہ قرض دینے والا اپنی خوشی اور مرضی سے یہ معاف کر دے ۔ 
چند برسوں، خصوصاًگزشتہ چار ماہ سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان دھرنوں اور جلسوں میں لوگوں سے جو وعدے کررہے ہیں وہ ان پر قرض ہے۔ جوان مرد وخواتین کے علاوہ بچے اور بوڑھے بھی جس کثیر تعداد میں دھرنوں اور جلسوں میں شرکت کر رہے ہیں وہ حیران کن ہے۔ وہ جن تکالیف و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ان کا ساتھ دے رہے ہیں اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، یہ منا ظر دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریاستی تشدد اور رکاوٹوں کے با وجود لوگوں کا گھر بار چھوڑ کر اپنے ننھے منے بچوں سمیت عمران خاں کی آواز پر لبیک کہنا غیر معمولی بات ہے جس کا مشاہدہ چشم فلک کررہی ہے۔ سب زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے دھرنوں اور جلسوں میں وہ 
خواتین اور مرد بہت بڑی تعداد میں شریک ہورہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی اس طرح کے اجتماعات میں نہیں دیکھے گئے۔ 
14 اگست سے اب تک اور پھر 30نومبر کو اسلام آباد کے بلیو ایریا اور شاہراہ دستور پر چشم فلک نے وہ منا ظر دیکھے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والی ستر سے اسی سال تک کی عمر رسیدہ اور معذور خواتین پشاوراورنوشہرہ سے اپنے نوجوان بچوں کے ہمراہ ویل چیئرز پر عمران خان کے جلسے میں شریک ہونے کے لیے آ رہی تھیں۔دوسری جانب انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے معذور اور اپاہج افراد بھی بیساکھیوں کے سہارے گھسٹتے ہوئے شاہراہ دستور کی جانب بڑھ رہے تھے۔ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے جگہ جگہ لگائی جانے والی رکاوٹوں کے باعث یہ لوگ دھرنے کے مقام تک پہنچنے کے لیے کئی کلومیٹرکا فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ رکاوٹیں اس لیے کھڑی کی گئیں تاکہ لوگ طویل فاصلے سے گھبراکر یہاں آنا چھوڑ دیں ، لیکن لوگوں نے کچھ اور طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔سوشل میڈیا پر لوڈ کی جانے والی تصویروں میں موسم کی مناسبت سے لباس پہنے خوشحال گھرانوں کے ہر عمر کے مرد و خواتین اسلام آباد کی گھاٹیاں چڑھتے اور پانی کے نالوں پر رکھی ہوئی آڑی ترچھی اینٹوں اور چھوٹے چھوٹے تختوں کے اوپر سے سنبھل سنبھل کر گزرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں، سائیکلوں اوردو تین کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرکے بھی لوگ دھرنے میں پہنچتے ہیں ۔ 
کیا یہ سب لوگ عمران خان سے کچھ لینے جاتے ہیں؟ کیا عمران خان نے ان کے لیے چٹ پٹے کھانوں کا بندو بست کیا ہو تا ہے؟ ان سے جب دھرنے اور جلسوں میں آنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیںکہ عمران خان نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمارے حقوق ہمیں دلا کر رہے گا۔۔۔۔۔ وہ روزانہ ہم سب سے وعدہ کرتا ہے کہ ہمارے اذیت ناک مسائل کو ختم کر دے گا ۔۔۔۔ کیا عمران خان کو یہ احساس ہے کہ اس کے یہ وعدے 'قرض‘ہیں جو اس نے کروڑوں کچلے ہوئے لوگوں کے ساتھ کیے ہیں؟
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ،اس ملک کے عوام اپنے لیے کسی مسیحا کی تلاش میں رہتے ہیں، جو بھی ان سے اچھی بات کرتا ہے یہ اس پر یقین کرتے ہوئے ا س کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ اﷲ پاک خوب جانتا ہے کہ کبھی انہیں روٹی کپڑے اور مکان کے نام پر،کبھی اللہ اور اس کے محبوب ﷺ کے نظام کے نام پراور کبھی دین کی سر بلندی کے نام پر انہیں ورغلایاگیا۔ یہ لوگ ان کا ظاہر دیکھ کر ان کے حق میں نعرے لگاتے رہے، ایک بار نہیں کئی باران کے ہاتھوں کھلونے بنتے رہے، لیکن جب وعدے ایفا کرنے کا وقت آتا تو یہ غریب اور مظلوم عوام کو کچھ بھی نہ دیتے ۔
آج ایک بار پھر ان سے حمایت اور قرض مانگا جا رہا ہے۔ یہ قرض ہے کہ لوگ ان کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس وقت عمران خان لوگوں کے ساتھ وعدے کررہا ہے۔ کروڑوں لوگ ان وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے اس کے گرد جمع ہو رہے ہیں، پولیس تشدد بھی برداشت کررہے ہیں، بعض نوجوانوں کو عمر بھر کے لیے معذور بنا دیا گیا، صرف اس جرم میں کہ انہوں نے عمران خان کے دھرنے میں شرکت کی تھی۔ 
عمران خان کو مکمل ادراک ہونا چاہیے کہ لاکھوں لوگ لاہور ، فیصل آباد ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ ، جہلم، بہاولپور، ملتان، گجرات، رحیم یار خان، لاڑکانہ، کراچی، ساہیوال، سرگودھا اور میانوالی میں اس کی آواز پر کیوں کھچے چلے آتے ہیں؟ یقیناً ان کے وعدے پربھروسہ کرتے ہوئے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا لیڈر جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے ، جو بتا رہا ہے وہی صحیح ہے اور جو وعدہ کر رہا ہے اسے ہر صورت میں نبھائے گا، جو عہد کر رہا ہے اس پر قائم رہے گا۔ دوسروں کی طرح ان کے ساتھ روایتی سیاسی کھیل نہیں کھیلے گا بلکہ عملی اقدامات کرے گا، انہیں وقتی خواب نہیں دکھائے گا بلکہ ان کی حقیقی تعبیر سامنے لے کر آئے گا۔
اس ملک کے کروڑوں مظلوم اور غربت کی گہرائیوں میں اترے ہوئے عوام سے عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں عزت نفس اور انصاف فراہم کرے گا، نوجوانوں کا مستقبل بہتر بنا ئے گا، اقوام عالم میں پاکستان کو ایک با عزت مقام دلوائے گا، ملک بھر میں ہر شہری کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے گا۔ یہ سب وعدے قرض ہیں جو عمران خان کے لیے واجب الادا ہیں۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی کوتاہی ہوئی تو اس دنیا میں اور آخرت میں جب سب اپنے اﷲ کے حضور اپنے وعدوں کا مکمل حساب دینے کے لیے کھڑے کئے جائیں گے تو اس ملک کے کروڑوں عوام اﷲ سے درخواست کر رہے ہوں گے کہ ''یہ وہ شخص ہے جس پر ہمارا قرض واجب الادا ہے ! ‘‘
کیا اس ملک کے منصف اسلام آباد جلسے سے واپس جانے والے دو نوجوانوں کی ٹانگوں پر رولر پھیرنے والے گجرات پولیس کے اہلکاروں کا احتساب کر یں گے ؟ یاد رکھیں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دیا جانے والا حلف بھی ' قرض‘ ہوتاہے اور قرض معاف نہیں کیا جاتا!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں