"MABC" (space) message & send to 7575

جھوٹ اور سچ

فیصل آباد کے دو نو جوانوں کے قتل کو حکومتی وزیروں اور سرکاری اہلکاروں کی مدد سے جس طرح ہوا میں اڑایا جا رہا ہے وہ مضحکہ خیز بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ قاتل کو مقتول ثابت کرنے کیلئے اس طرح پروپیگنڈے کا دھواں اڑایا گیاجیسے یہ واقعہ خلا میں ہوا ہو۔ماڈل ٹائون کے بعد فیصل آباد میں بہائے جانے والے انسانی خون کی سیا سی ضمنیوں کو منظم پروپیگنڈا کے ذریعے اس طرح ڈبکیاں دی گئیں کہ انسانیت بھی اس پر شرما رہی ہو گی۔ ٹی وی چینلز پر برپا کیا جانے والا پروپیگنڈا یونانی زبان کا لفظ ہے جویونان میں رہنے والے ایک شخص کا با قاعدہ نام تھا ۔اس شخص کی عادت یہ تھی کہ وہ خود ہی کوئی بات گھڑتا او رپھر اسے اس مہارت سے پھیلادیتا کہ جس چیز کا کوئی وجو دہی نہیں ہوتا تھا۔ لوگ اسے سچ سمجھ لیتے۔ پروپیگنڈا نام کا یہ شخص یونان بھر میں خاصا مشہور ہو چکا تھا اس لیے اُن کے نام کی منا سبت سے ہر جھوٹ اور افواہ کو پروپیگنڈا کا نام دیا جانے لگا۔ یونانی سے یہ لفظ دوسری زبانوں میں بھی استعمال ہونے لگا۔ دوسری جنگ عظیم میں ایک طرف جرمنی، جاپان اور اٹلی تھے تو مقابلے میں امریکہ ، روس، برطانیہ، فرانس اور پولینڈ سمیت کئی ممالک تھے۔ اس جنگ میں جرمنوں نے پروپیگنڈے کا ہتھیار بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ 
استاد گوگا دانشور نے مجھے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ وہ ٹی وی خرید کر گھر لائے اور رات نو بجے ''سرکاری چینلز‘‘ کے خبر نامے کے دوران کمپنی کے سیل آ فس فون کرتے ہوئے شکایت کی کہ ان سے خریدے جانے والے ٹی وی میں کچھ خرابی محسوس ہو رہی ہے۔ سیلز آفیسر نے پوچھا کہ تصویر نہیں آ رہی یا آواز صحیح سنائی نہیں دی رہی یا آپ کا ٹی وی آن ہی نہیں ہو رہا؟ میں نے کہا کہ ٹی وی آن بھی ہے آواز بھی ٹھیک ہے لیکن تصویر صحیح نہیں آ رہی ہے۔ سیلز آفیسر نے زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا گوگا صاحب تصویر بارے شکایت صرف آپ کی ہی نہیں؛ بلکہ جو بھی ہم سے ٹی وی لے کر جاتا ہے اسے یہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے ۔ہماری حکومت جس قسم کی پریس کانفرنس کا مواد اپنے وزراء کے حوالے کرتی ہے اس مواد کو اور انہیں تھمائے جانے والے بیانات کو اگر آپ بھی پڑھیں گے تو آپ کی تصویر بھی کچھ کچھ بگڑی لگے گی۔ فکر مت کریں آپ کا ٹی وی با لکل ٹھیک ہے خبریں سننے کے بعد جب آپ ٹی وی دیکھیں گے تو آپ کو کوئی شکایت نہیں رہے گی۔
کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں حکمرانوں کی نظر عنایت یا رشتہ داری کی وجہ سے جو بھی وزیر بنائے جاتے ہیں تو حلف لینے سے قبل وزارت کا تقرر نامہ ان کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس وزیر کو جو محکمہ دیا جا رہا ہے اس کے متعلق وہ کچھ جانتا بھی ہے یا نہیں ؟ چونکہ اپنی وزارت کے بارے میں کچھ جاننا اہلیت کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ ان کے پاس ایک خاصیت لازمی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے حاکم اور اس کے خاندان کی مدح سرائی میں ثانی نہ رکھتے ہوں۔ ایسا صرف موجودہ دور میں نہیں ہو رہا، لیکن سابق ادوار میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ 
حکومت میں جو بھی ہو گا‘ ظاہر ہے وہ حکمرانوں کے مفاد کی ہی ترجمانی کرے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ غلط ہو۔ تاہم دیکھا
گیا ہے کہ لوگ زیادہ تر اپوزیشن کی بات کو سچ سمجھتے ہیں۔ وہی سیاستدان جو حکومت میں ہوتے ہوئے ٹاک شوز پر جو باتیں کرتے ہیں‘ لوگ انہیں سنجیدہ نہیں لیتے اور جیسے ہی یہی سیاستدان اپوزیشن میں آ جاتے ہیں‘ تو انہی لوگوں کی باتوں کو عوام سچ سمجھتے ہیں اور ان پر متوجہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ بطور حکمران ہمارے ملک میں جو بھی آیا‘ اس نے ملک کے ساتھ بہت زیادہ وفاداری نہیں نبھائی۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی اپنے کردار سے ہٹ گئی۔ اس کا کام صرف الزام برائے الزام تراشی تک ہی رہا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک سیاستدان جو دعویٰ کرتا ہے‘ وہ کچھ وقت کے بعد غلط ہو جاتا ہے۔ مثلاً آپ پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثنا اﷲ کا وہ بیان سامنے رکھ لیں جس میں وہ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں بڑی اونچی آواز سے بتا رہے تھے کہ پی ٹی آئی کا کارکن ناولٹی چوک سمندری روڈ پر ٹائروں کو آگ لگا کر مظاہرہ کر رہا تھا کہ اپنے کپڑوں کو لگنے والی آگ بجھانے کیلئے وہ نہر میں کودا لیکن ڈوب گیا۔ اب اگر کوئی
شخص اس بیان کو جھوٹا ثابت کرتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ سمندری روڈ والی یہ نہر کس قدر گہری ہے کہ پونے چھ فٹ قد کا نوجوان اس میں چھلانگ لگانے سے ڈوب جائے؟ اس بیان کے جواب میں یہ کہنا بھی سخت زیا دتی ہو گی کہ ایسی نہر جس کی گہرائی سب جانتے ہیں اس میں کودنے والا نوجوان لڑکا ڈوب کر مر جائے اور اس کے سینکڑوں ساتھی جن کے ہمراہ وہ مظاہرہ کر رہے تھے وہ خاموش کھڑے اسے نہر میں ڈوبتا دیکھتے رہے۔ جلد ہی وقت بتائے گا کہ یہ نو جوان کیسے ڈبویا گیا؟ 
ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کو جانے کی بہت زیادہ جلدی ہے۔ وہ نوشتہ دیوار نہیں پڑھ رہے۔ اسی لئے تو وہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوری قوم کو بیوقوف بنانا اب اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے کبھی ہوتا تھا۔ یہ نوے کی دہائی نہیں ہے۔ تب ایک سرکاری ٹی وی کے ذریعے پورا ملک کنٹرول کیا جاتا تھا۔ اب درجنوں ٹی وی چینلز جھوٹ کا پول کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ جھوٹ کوئی بھی بولے‘ چاہے تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی‘ اس کا یہ جھوٹ اسی طرح عوام کے سامنے پہنچ جائے گا۔ فیصل آباد کے بارے میں نون لیگ کا یہ کہنا کہ یہ اس کا گڑھ
ہے‘ یہ بھی عوام نے دیکھ لیا۔ عوام کو کوئی بھی قید نہیں رکھ سکتا۔ ہرشخص کی اپنی ضروریات اور پسندناپسند ہوتی ہے۔ کوئی کسی کو زیادہ دیر اپنی خواہشات کا غلام نہیں بنا سکتا اور وہ بھی آج کے دور میں۔ کیا فیصل آباد کے لوگوں کو مہنگائی‘ بدامنی اور لا قانونیت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا؟یہ وہ سوال ہے جس نے فیصل آباد کے لوگوں کو باہر آنے پر مجبور کیا۔ وہ اپنے ہی حکمرانوں سے کب سے تنگ تھے۔ تحریک انصاف نے انہیں یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی آواز آزادی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں۔یہ موقع پیپلزپارٹی نے ضائع کر دیا۔ یہ فرینڈلی کھیل کھیلتی رہی اسی لئے آج کوئی اس کا نام بھی نہیں لیتا۔ فیصل آباد میں اگر ٹی وی کیمروں نے نون لیگ کے کارکنوں کی کارروائیاں ریکارڈ نہ کی ہوتیں‘ تو یہ اتنا بھی نہ مانتے جتنا مان چکے ہیں۔
کہتے ہیں کہ مغرب اور امریکہ میں جھوٹ پکڑنے والی مشینیں ایجاد ہو چکی ہیں لیکن پاکستان میںجھوٹ اس طرح پکڑے جاتے ہیں کہ ایک سرکاری شخصیت کہہ رہی تھی کہ پی ٹی آئی والوںکا ورکر اصغر علی جو آگ لگنے سے نہر میں کود گیا تھا اس کے قتل کا الزام بھی مجھ پر لگا دیا جائے گا۔۔۔ کسی کے بھی علم نہیں تھا کہ اصغر علی نہر میں ڈوب کر ہلاک ہوا ہے۔۔۔اور پھر رات نو بج کر پندرہ منٹ پر تمام ٹی وی چینلز پر خبر آئی کہ ڈی چوک کے قریب نہر سے ایک نو جوان کی لاش ملی ہے اور حیران کن طور پر اُن صاحب کو سب سے پہلے ہی خبر ہو چکی تھی۔اس کے پیچھے کیا راز ہے یہ وقت اور مورخ ضرور بتائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں