پندرہ سال تک بچے کو پالتے رہے ہر لمحہ ہر پل اسے دیکھ دیکھ کر جیتے رہے اس کی ایک ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی ضرورتیں قربان کرتے رہے۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا رہا اس کی زندگی کی دعائیں مانگتے رہے۔ لیکن خوف خدا سے عاری دہشت گردوں نے صرف بیس سیکنڈ میں ہم سے اس طرح چھین لیا کہ اب نہ ہم اسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی چھو سکیں گے۔ طاہر علی کہتے ہیں کہ میرا بیٹا میرا خواب تھا اور یہ خواب اس طرح کچل دیا گیا کہ ان کا چودہ سالہ بیٹا عبد ا ﷲ سکول میںانتہا پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منوں مٹی تلے جا سویا ۔ یہ کسی ایک طاہر علی کا خواب نہیں تھا بلکہ یہ ان 132 والدین کے خواب تھے جو اپنی تعبیر دکھانے سے پہلے ہی تحلیل کر دیئے گئے۔ وہ معصوم بچے جو اپنے گھروں سے یہ سوچ کر سکول گئے کہ آرمی کی میڈیکل ٹیم سے فرسٹ ایڈ کی ابتدائی تربیت لینا ہے۔ انہیں کیا علم تھا کہ ان میں سے 132بچے میڈیکل ایڈ کی تربیت اور ضرورت سے ہمیشہ ہمیشہ بے نیاز ہو نے والے ہیں ۔
کیا دہشت گردوں کو پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ فوج کی میڈیکل کور کی ٹیم اس سکول میں لڑکوں کو فرسٹ ایڈ کی تربیت دینے کیلئے آنے والی ہے؟ یہ وہ اہم نکتہ ہے جو اس سانحہ عظیم کا کھوج لگانے والوں کے سامنے بہت بڑے سوال کی صورت میں سامنے آئے گا۔ یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ جی ایچ کیو ہو یا مہران بیس، کامرہ ہو یا کراچی ڈاکیارڈ، جنرل مشرف پر ہونے والے تین حملے ہوں یا واہگہ بارڈر کا سانحہ اور کراچی ائیرپورٹ، ہمیشہ سے ہی اندر کا کوئی نہ کوئی آدمی سہولت کار اور مددگار کی حیثیت سے ان دشمنانِ دین کے ساتھ شامل تھا۔ اگر آج کسی میں سچ سننے کی ہمت ہے تو وہ جان لے کہ یہ ہزاروں کی تعداد میں سہولت کارآپ کو بعض مقامات پر گرجتے برستے نظر آئیں گے۔یہ طالبان کے حق میں دعائیں کرتے نظر آتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ طالبان کو اختلافات ختم کر کے کس کے خلاف متحد کرنے کی دعائیں مانگی جا رہی ہیں؟اگلا سوال یہ ہے کہ کتنے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا ؟ سیدھا سا جواب ان کیلئے ہے جو سمجھنا چاہتے ہیں یا سننا چاہتے ہیں کہ یہ مددوطنِ عزیز اور مسلح افواج کے خلاف مانگی جا رہی ہے۔ دہشت گردوں کے یہ خیرخواہ جگہ جگہ موجود ہیں۔
اگر دہشت گردی کے خاتمے کا آغاز کرنا ہے تو فیصل آباد میں تحریک انصاف کے جلوس پر حملہ کرنے والے افراد سے اسی طرح تفتیش کر کے دیکھ لیا جائے جس طرح کسی انتہا پسند کے خلاف کی جانی چاہیے۔ سب کچھ سامنے آ جائے گا ۔ لیکن یہ سب کیسے ہو سکے گا؟ اس کی ایک ہی صورت ہے ۔ سب کو اپنی سیا ست اور ووٹ بینک کی قربانی دینا پڑے گی، سرجیکل آپریشن کر کے اس قسم کے ناسوروں کو کاٹ پھینکنا ہو گا۔ اس کے لیے اپنے مفادات، اقتدار،اتحادی اور مددگار نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ یہی سوچ اس وقت پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے، اگر ایسا نہیں تو پھر کوئی کسی بھی کانفرنس سے ، چاہے وہ گول میز کے گرد بیٹھ کر کی جائے یا پورے ہال میں چاروں طرف لگائے جانے والے صوفوں کی صورت میں کی جائے، کوئی دیرپا حل نہیں نکلے گا؟ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت کے پی کے سمیت آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، کراچی اور پنجاب کے بعض ادارے دہشت گرد وں کی نرسریاں بن چکے ہیں، جہاں معصوم ذہنوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ چھوٹے قصبوں کی گہرائی سے نگرانی کر لی جائے، تو کئی حقائق بے نقاب ہو جائیں گے، لیکن کوئی بھی اس طرف قدم بڑھاتے ہوئے ڈرتا ہے شاید اس لیے کہ اس طرح ان کا ووٹ بینک متا ثر ہوتا ہے ۔
2004 ء میں روس کے شہر بسلان کے ایک سکول پر اسی طرح حملہ کیا گیا جس میں186 بچے ہلاک ہوئے لیکن روسی حکومت نے اس کے ایک ایک ذمہ دار کو صرف سات دنوں میں عبرت ناک انجام تک پہنچا کر دم لیا۔ یہی انصاف ہے لیکن جس ملک اور معاشرے میں جزا اور سزا کا تصورہی ختم کر دیا جائے۔ جس مسلم معاشرے میں اﷲ اور اس کی کتاب قران پاک کی تعلیمات کو یورپی یونین کی ناراضی کے ڈر سے اور جی پی ایس پلس کے خوف سے پس پشت ڈال دیا جائے اس معاشرے میں واہگہ، کوہاٹی چرچ، پشاور سکول، پریڈلین اورکوئٹہ جیسے مظالم اور دہشت گردی
کے واقعات نہیں ہوں گے تو اور کیا ہو گا۔2009ء سے ہمارے حکمرانوں نے یورپی یونین کے احکامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قصاص کو ختم کر دیا، اس پر اﷲ کا غضب تو نازل ہونا ہی تھا۔جس ملک میں دہشت گردوں کو با عزت بری کیا جائے، جس ملک میں اربوں ڈالر کی فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے والوں کو شاہی مہمان کا درجہ ملے گا، جس معاشرے میں ان دہشت گردوں کو پکڑنے والوں کوصبح و شام رسوا اور لاپتہ افراد کو ہیرو بنا کر پیش کیا جانے لگے وہاں یہی کچھ ہوتا ہے۔جس معاشرے کے لوگ ظلم کے خلاف بولنے کے بجائے زبانیں بند کر کے بیٹھ جائیں، جس کے دانشور قران کی بجائے جابر حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیں، اس معاشرے پر اﷲ کے قہر کو نازل ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟اب بھی وقت ہے کہ سول حکومت نہیں بلکہ فوج کی نگرانی میں ایمر جنسی کا نفاذ کر دیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ہر سکول اور درس گاہ سمیت ہر گھر ان ظالموں کے نشانے پر رہے گا۔ آرمی پبلک سکول کے شہید ہونے والے132 بچوں کی جنت کی جانب محو پرواز روحیں فریادکرتی سنائی دے رہی تھیں '' پاکستان کے حکمرانو! اگر تم نے ہمارے قاتلوں کو جہنم رسید نہ کیا تو ہم سب اﷲ کے دربار میںانصاف کے لیے فریاد کریں گے !! ‘‘