"MABC" (space) message & send to 7575

پُرکھوں کی گھر واپسی

دسمبر2014ء کے اوائل میں بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی اتحادی اور نریندر مودی کی بنیادی تربیت گاہ طاقتور راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل نے یو پی آگرہ میں ایک مذہبی تقریب میں57 مسلمان گھرانوں کے200 سے زائد افراد کو دوبارہ ہندو مذہب میں شامل کرتے ہوئے جشن منایا اور اس تقریب کو‘ جس میں ہزاروں ہندوئوں نے باجے گاجے کے ساتھ بھجن گاتے ہوئے شرکت کی، اسے '' پرکھوں کی گھر واپسی ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان خاندانوں کو دوبارہ ہندومت میں لاتے ہوئے کہا گیا کہ یہ صبح کے بھولے اب گھر آ گئے ہیں۔ یہ ہندو خاندان نسلوں سے مسلمان نہیں تھے بلکہ آج سے صرف تیس برس قبل مسلمان بنا دیئے گئے تھے‘ اس لیے ان کے ہندو دھرم میں واپس آنے سے کوئی قیامت نہیں آگئی ۔ آگرہ میں منعقد کی گئی اس تقریب میں بجرنگ دل اور دھرم جگران سمان وبھاگ کے مقامی اور ضلعی رہنمائوں نے بھی تقریریں کرتے ہوئے ہندو بنائے جانے والے ان خاندانوں کو خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ اب ان کے لیے بھارت کے کسی بھی تعلیمی ادارے یا سرکاری محکمے میں ملازمت کیلئے کوٹہ سسٹم کی پابندی نہیں رہے گی کیونکہ اب وہ آدھے نہیں بلکہ ''مکمل بھارتی‘‘ بن چکے ہیں۔ 
اس موقع پرآر ایس ایس کے راجیشور سنگھ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہماری تنظیم ہر ماہ کم ا زکم 50 لاکھ روپے مسلمانوں اور عیسائیوں کو مذہب کی تبدیلی کی ترغیب دینے کیلئے خرچ کر رہی ہے۔ یہ انتہا پسند ہندوئوں کے کھوکھلے دعوے نہیں‘ بلکہ اگر ریکارڈ اکٹھا کر کے دیکھا جائے تو پورا بھارت تو ایک طرف‘ 2003ء سے صرف براج ریجن‘ جس میں آگرہ، فتح پور سیکری،متھرا،فیروز آباد، اوٹاوہ، میرٹھ، مانپوری اور اُتر کھنڈ شامل ہیں‘ میں اب تک273000 مسلمان اور عیسائی ہندو مذہب میں شامل کر لیے گئے ہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی کسی بھی ہیومن رائٹس تنظیم کی جانب سے اس کے خلاف کسی قسم کی آواز اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔خیال تھا کہ بین الاقوامی میڈیا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ میں اس بارے میں سوالات اٹھائے گا لیکن سب چپ رہے تو ایسا لگا کہ یہ بھی ''Convert'' کر لئے گئے ہیں۔ جب مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو دس دسمبر کو راجیہ سبھا کے مسلمان ارکا ن نے پارلیمنٹ میں اس پر احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی اس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی اور بھارت سرکار سے مطالبہ کیا کہ ان واقعات کی تحقیقات کی جائے اور خاص طور پر جب راشٹریہ سیوک سنگھ کے ترجمان راجیشور سنگھ نے میڈیا کے سامنے یہ قبول کیا ہے کہ ان کی تنظیم ماہانہ پچاس لاکھ روپے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہند وبنانے کیلئے تقسیم کر رہی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟ ۔ بجرنگ دل، آر ایس ایس کا یہ دعویٰ دنیا بھر کے تمام مذاہب کیلئے پریشانی کا با عث ہونا چاہئے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ یہ نریندر مودی کی حکومت کا وہ منظور شدہ پانچ سالہ منصوبہ ہے جس پر عمل شروع کر دیا گیا ہے اور جس کا مطلب صرف ایک ہے کہ ہندوستان کو دوبارہ اس کی اصل شکل میں بحال کرتے ہوئے خطے میں ایک ہندوستان ایک ہندو قوم کی بنیاد رکھی جائے۔ 
یہ پہلا موقعہ نہیں بلکہ نریندر مودی کے بر سر اقتدار آتے ہی بھارت بھر میں مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ دوسری اقلیتوں کی زندگیاں بھی اجیرن بنا دی گئی ہیں۔ ستمبر 2014ء میں علی گڑھ کے رہنے والے34 عیسائی خاندانوں کو ترغیب و تحریص اور دبائو کے ذریعے ہندو بنا لیا گیا۔ اس واقعے سے میڈیا میں شور اٹھا جس پر بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں کچھ دب گئیں لیکن ابھی چند دن ہوئے کہ آر ایس ایس کے ترجمان راجیشور سنگھ نے کہا: ''ہمیں کسی کے احتجاج کی پروا نہیں۔ یہ ہندو ئوں کا ہندوستان ہے‘‘۔ 
عیسائیوں کو ہندو بنانے کیلئے دولت کے بے دریغ استعمال کی خبر جب عام ہوئی تو عیسائی اور کمیونسٹ پارٹی کے متحرک ہونے پر انہیں یہ سلسلہ وقتی طور پر روکنا پڑ ا، ورنہ کیرالہ میں تو
عیسائیوں کو ہندو مت میں لانے کیلئے ایک بہت بڑی تقریب منعقد ہونے جا رہی تھی جس میں بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے صوبائی لیڈران شرکت کر رہے تھے۔جب مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنائے جانے کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو حکمران بی جے پی کے لیڈر'' ونے کاتیار ‘‘نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ''بھارت ایک آزاد اور سیکولر ملک ہے‘ جہاں ہر کسی کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہے مذہب اختیار کرے ، جس طرح چاہے اپنے اپنے بھگوان کی پوجا پاٹ کرے ۔اگر کوئی ہندو ہونا چاہتا ہے تو بھارت کا کوئی قانون اس پر پابندی عائد نہیں کر سکتا‘‘۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا یہ آزادی صرف دوسری اقلیتوں کے ہندو بننے کیلئے ہی ہے یا ہندو مت سے تعلق رکھنے والا بھی کوئی دوسرا مذہب اختیار کر سکتا ہے؟ اس کا جواب نہ بن پڑنے پر وہ معنی خیز خاموشی اختیار کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگ گئے۔ 
کوئی ایک ماہ قبل کینیڈا سے مجھے کسی قاری نے ای میل میں لکھا تھا کہ یہاں جتنے بھی بھارتی رہ رہے ہیں، ان کے اور بجرنگ دل، مودی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے خیالات میں رتی بھر فرق نہیں۔ یہ سب ایک ہی مشن ایک ہی مقصد کے لیے مودی کا ساتھ دے رہے ہیں کہ وہ انہیں ان کا مہان بھارت واپس دلا کر رہے گا۔اور ہندوتوا یا ہندو نیشنلزم کا جو تصور نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی دنیا بھر میں بسنے والے ہندوئوں کے ذہنوں میں نقش کر رہی ہے وہ خطے میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے امن کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کو بے لگام کرتے ہوئے وہ کسی کی خدمت کر رہا ہے تو اتنا یاد رکھیں کہ اس طرح وہ کسی دھرم کی خدمت نہیں کر رہے، اپنے کسی ایجنڈے کی تکمیل نہیں کر رہے بلکہ انسانیت کی بربادی کے بیج بورہے ہیں، جو ہماری بھی اور ان کی بھی موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ترقی اور امن کے تمام راستے بند کر کے رکھ دیں گے۔ اس لئے ابھی وقت ہے کہ عالمی میڈیا اور اقوام متحدہ فرض سمجھتے ہوئے، جبراً مذہبی تبدیلی کی کارروائیوںکے خلاف یکجا ہو کر کھڑے ہو جائیں جیسے کسی بھی ملک میں کسی بھی اقلیت کے خلاف ہونے والے ظلم اور زیا دتی پردنیا بھر کی سب تنظیمیں اور میڈیا کے لوگ ایک آواز ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے مسئلے پر کسی بھی قسم کی تفریق شرمناک ہے۔ 
بھارت کے ایک سے دوسرے سرے تک بسنے والے مسلمانوں کے علا وہ عیسائی کمیونٹی ا س وقت انتہائی پریشان دکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ بات اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ صرف بھارت کے ایک صوبے اتر پردیش میں عیسائیوں کے60 چرچ ہندو انتہا پسندوں نے جبراً اپنے تصرف میں لے لیے ہیں اور بھارتی جنتا پارٹی کھلے عام دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب بھارت کے سب چرچ برابر کر دیے جائیں گے اور یہاں صرف گیتا کا راج ہو گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں