"MABC" (space) message & send to 7575

ہنگامی دروازے کیوں نہیں؟

بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کراچی میں لگنے والی آگ اور نا قص انتظامات کی وجہ سے جب مزدوروں اور دوسرے کام کرنے والوں سمیت سب کچھ جل گیا تو خیال تھا کہ کراچی کی انتظامیہ یا کراچی میں بیٹھی ہوئی پی پی پی کی طاقتور حکومت اس سے سبق سیکھتے ہوئے آئندہ کے لیے بندوبست کرے گی لیکن گذشتہ ہفتے ٹمبر مارکیٹ کراچی میں بھڑکنے والی آگ سے ہونے والی تباہی نے تمام انتظامات کو ننگا کر کے رکھ دیا جہاں ایک طرف ہونے والا یہ اندو ہناک واقعہ اپنے اندر بہت سے شکوک و شبہات لئے کھڑا ہے تو دوسری جانب لاپرواہی اور عوام کی جان و مال کے عدم تحفظ کے احساسات کو بھی جھنجھوڑرہا ہے ۔ کراچی کی آگ کے اگلے ہی دن لاہور کی نئی انارکلی کے ایک پلازے میں لگنے والی آگ نے مالی طور پر کئی گھر اجاڑنے کے علا وہ تیرہ سے زائد افراد کی جانیں لیتے ہوئے ان گھرانوں میں صف ماتم بچھا دی۔بد قسمتی دیکھئے کہ لاہور کے یہ تیرہ افراد دم گھٹنے سے جا ںبحق ہوئے ۔وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کا کوئی ہنگامی یا عقبی راستہ ہی نہیں تھا اور وہ لوگ جو آگ بجھانے کیلئے لوہاری گیٹ اور مال روڈ سے آ رہے تھے، ان کے راستوں میں تجاوزات کی اس قدر بھر مار تھی کہ اس افراتفری میں جہاں ایک عام گاڑی کے گذرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی، وہاں یہ بڑی گاڑیاں کس طرح بر وقت پہنچ سکتی تھیں۔دیکھا جائے تو سرکاری اداروں کی غفلت کی وجہ سے حائل ہونے والی تجاوزات کے نام پر جگہ جگہ بکھری ہوئی رکاوٹیں ہی ان 13 افراد کی ہلاکتوں کا سبب بنیں۔یہ تو شائد کبھی وقت بتا دے کہ آگ لگنے کا حقیقی سبب کیا ہے لیکن جو سامنے نظر آ رہا ہے وہ صرف کرپشن اور بد عنوانی ہے چاہے وہ ایل ڈی اے کی ہو، لیسکو کے عملے کی یا ڈی سی او لاہور کی۔۔۔ کسی بھی عمارت اور پلازے کو تعمیر کرتے وقت حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے مالکان کی طرف سے شائد صرف یہی دیکھا جاتا ہے کہ کتنی زیا دہ اور دوکانیں بن سکتی ہیں اور شائد اسی لالچ اور آمدنی کے ذرائع میں اضافے کی ہوس نے ہمارے سسٹم اتنے ناقص کر رکھے ہیں کہ نہ تو ان عما رتوں اور پلازوں کو بنانے والے اور نہ ہی ان کی اجا زت دینے والے اور نہ ہی ان کی چیکنگ کرنے والے اس طرف دھیان دینا گوارا کرتے ہیں کہ آگ لگنے یا کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے منا سب انتظامات کئے گئے ہیں یا نہیں ؟۔ جس ملک میں کوئی قاعدہ قانون نہ ہو جہاں اپنوں کو کھلی چھٹی ہو،جہاں تجاوزات کے ذریعے ووٹ اکٹھے کئے جاتے ہوں اور جہاں انہیں پوچھنے والی کوئی عدالت نہ ہو وہاں یہی ہو گا کہ اپنے 18 گریڈ کے منظور نظر کو 21 گریڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹ پر بٹھا دیا جائے اور پھر اسی طرح تمام فائلیں جل کر راکھ کر دی جاتی ہیں جیسے دو سال قبل ڈیڑھ کھرب روپے کی فائلیں لاہور ایل ڈی پلازہ کے جل جانے سے ہوا۔یہ تو سبھی جانتے ہوں گے کہ لاہور کے ترقیاتی ادارے(LDA) کے اہلکار کسی بھی گھر کی تکمیل کے بعد اس کا تکمیلی سرٹیفکیٹ دینے کیلئے اس قدر جلدی پہنچ جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ انہوں نے اس عمارت، پلازے اور گھر کے ارد گرد ہی ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور یہ تکمیلی سرٹیفکیٹ لینے اور دینے والے جس باہمی مفاد کے تحت ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ دونوں ہی ہاتھ بٹانے کے معاشرتی قاعدے قانون کے سب سے زیادہ پابند ہیں۔ 
نئی انارکلی پلازہ میں لگنے والی آگ اور اس کے نتیجے میں تیرہ قیمتی جانوں اور کروڑوں کی املاک کی تباہی نے لاہور کے وہ زخم پھر سے تازہ کر دیئے جو شاہ عالمی کے دو پلازوں میں وقفے وقفے سے بھڑکنے والی آگ نے لگائے تھے۔اس وقت پوری پنجاب حکومت اس طرح کف افسوس مل رہی تھی جیسے ان سے بہت بڑی بھول ہو گئی تھی اور پھر 
چند دن بعد سب کچھ بھول کر اس انتظار میں بیٹھ گئے کہ کب کوئی دوسرا حادثہ ہو جس سے کچھ اور لوگوں کے جل بھن کر کباب ہونے کا تماشہ دیکھا جا سکے۔ پنجاب انتظامیہ نئی انارکلی کی بات تو کر رہی ہے کہ لیکن وہ شائد بھول گئی کہ اسی لاہور کے شاہ عالمی میں لگنے والی آگ سے بھی کئی گھر اجڑ گئے تھے اور اس کے بعد بھی تعمیر ہونے والے لاہور کے نہ جانے کتنے پلازوں کو عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کر دیا گیا ہے لیکن نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ جتنی بھی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں ان میں سے کسی بھی عمارت کے ذمہ دار افسر ان نے تفصیلی اور تکنیکی جائزہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی ہو گی کیونکہ کسی دوسرے کو پوچھنے والوں کا اپنا یہ حال ہے کہ لاہور کے ترقیا تی ادارے کے ایجرٹن روڑ پر تعمیر کئے جانے والے11 منزلہ پلازہ میں کوئی بھی حفاظتی یا ہنگامی دروازہ نہیں تھا اور اس میں لگنی والی آگ کی کہانی بند ڈبوں میں ہی جل بھن کر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔
یہ 9 مئی 2013 ء کے انتخابات سے چند دن پہلے کا واقعہ ہے جب لاہور کے باسیوں نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ لاہور کے ترقیاتی ادارے کے مرکزی دفتر ایل ڈی اے پلازہ کی ساتویں اور آٹھویں منزل سے آگ اور دھوئیں کے شعلے بلند ہو رہے ہیں اور آگ ہے کہ بجھنے میں ہی نہیں آ رہی اور نیچے زمین پر مرد، عورتوں اور بچوں کے اکٹھے ہونے والے ہجوم کی طرف سے آہ و فغان کا سلسلہ جاری ہے ۔کئی گھنٹے گذر گئے اور جب کچھ بھی نہ بن پڑا تو یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ لوگ چھلانگیں لگاتے ہوئے نیچے پکے فرش پر ایسے گر رہے تھے جیسے پکے ہوئے پھل۔۔۔۔اور نیچے زمین پر سوائے وقفے وقفے سے ایک لمبی دردناک چیخ اور ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز وں کے علاوہ اور کچھ بھی سنائی نہیں دے رہاتھا ۔ ایل ڈی پلازہ میں کیا جلا ، کون سی فائل جلی ،کون سی سڑک کا ریکارڈ جل کر خاکستر ہو گیا اور کون سا اربوں روپے کا پراجیکٹ راکھ ہو گیااس پر بات کرنا منا سب نہیں کیونکہ یہ حکومت جانے اور ان کے کام ۔اس مضمون کا مقصد کسی پر الزامات لگانا نہیں لیکن ہاں یہ مقصد ضرور ہے جس پر آواز نہ اٹھانا بے حسی اور ظلم کا ساتھ دینے کے برا بر ہو گا اور وہ ہیں وہ 23 قیمتی انسانی جانیں جو اس آگ اور اس پلازے کے کرتا ئوں دھرتائوں کی غفلت کی نذر ہو چکی ہیں۔ان میں سے9 لوگ وہ ہیں جو دھوئیں کے بادلوں سے اپنی جان بچانے کیلئے نویں منزل سے کود کر موت کی وادی میں جا پہنچے اور 13 افراد آگ اور دھوئیں کی نظر ہو کر اپنی جان سے ہار گئے ...ان کا ذمہ دار کون تھا اور ہے؟۔اگر انصاف کریں تو وہی جن کی غفلت اور آنکھیں بند کرنے سے شاہ عالمی اور نیو انارکلی کے درجنوں گھر اجڑ گئے۔۔۔۔کیا آپ کو کہیں بھی سیفٹی کمیشن کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے لوگ نظر آ رہے ہیں؟...!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں