"MABC" (space) message & send to 7575

شہدا کا رتبہ

پاکستان کی تاریخ شہادتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی بنیادوں میں ان شہیدوں کا خون ہے جو پاکستان بنانے اور پھر اس میں آباد ہونے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے۔ پھر1948ء کی کشمیر جنگ سے لے کر اب تک دہشت گردی کی جنگ میں اس کا ایک ہی دشمن سے سامنا ہے۔ کبھی وہ مکتی باہنی کے روپ میں سامنے آتا ہے‘ کبھی بلوچ لبریشن کی شکل میں تو کبھی تحریک طالبان کی شکل میں۔ آرمی پبلک سکول، واہگہ، پریڈ لین، کارگل، سیاچن، مشرقی پاکستان، لاہور اور سیالکوٹ اور کبھی پاکستان کی قاسم مارکیٹ،حمزہ کیمپ اور اس سے پہلے درگئی جب 8 نومبر2006ء کو سرحد،پنجاب ، سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے 18سے 21 سال تک کی عمر کے بیالیس پھولوں کو ایک خود کش حملہ میں شہید اور درجنوں کو زخمی کر دیا گیا۔ ان زخمیوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو ساری زندگی کیلئے معذور ہو چکے ہیں‘ کسی کی ٹانگ نہیں تو کسی کا با زو نہیں۔ ان میں حیدرآباد سندھ کا 21 سالہ رجب علی، چکوال کا 19سالہ لیاقت علی، کوہاٹ کا 20سالہ محمد آصف‘ چکوال کا 19سالہ کلیم سلطان،تخت بھائی مردان کا 20سالہ اکرام خان اور جہلم کا رمیض علی شامل ہیں جنہوں نے اپنے بازو، ہاتھ اور ٹانگیں اس ملک پر نچھاور کر دیں۔ ان سب کا قصور یہ تھا کہ وہ پاکستان کے پہریدار بننے جا رہے تھے۔ اس پاکستان کے پہریدار جس میں رہنے والی کروڑوں مائیں، بہنیں اور پاکیزہ بیٹیاں صبح و شام قرآن مقدس کی تلاوت کرتی ہیں اور اپنے اﷲ کے حضور پانچ وقت سر بسجود رہتی ہیں۔ ان مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں اور عصمتوں کو دشمن سے محفوظ رکھنے کے لیے ان 42پہریداروں اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو درگئی کے پنجاب رجمنٹل سینٹر میں تیار کیاجارہا تھا۔ ان میں سے کسی نے 65ء کی جنگ کی طرح لاہور کی دہلیز پر قربان ہو نے کے لیے ایف ایف رجمنٹ کا نائیک گل مرجان اور نائیک غفران شاہ بننا تھا‘ تو کسی نے 1971ء میں واہگہ اٹاری پر جام شہادت نوش کرنے والے لانس نائیک محمد محفوظ شہید نشانِ حیدر کی جگہ لینی تھی‘ کسی نے کارگل کے نشان حیدر حوالدار لالک جان شہید کی جگہ کھڑا ہونا تھا تو کسی نے ضلع پونچھ کے پیر کلیوا کے مقام پر شہید ہونے والے سیکنڈ حیدری فورس (18آزاد کشمیر رجمنٹ )کے نائیک سیف علی جنجوعہ ہلالِ کشمیر کی یاد تازہ کرنی تھی‘ لیکن ان پھولوں کو خود کش حملہ کر کے مسل دیا گیا۔ خود کش دہشت گرد کو اس حملہ کے لیے کسی نے تیار کیا ہوگا۔ اس کے جسم کے ارد گرد دس کلو سے بھی زیادہ بارود بھی کسی نے باندھا ہو گا اور کسی نے اسے یہ بارود استعمال کرنے کی تربیت بھی دی ہو گی۔ کسی نے اسے جھوٹے مذہبی خواب بھی دکھائے گئے ہو ں گے اور کوئی اسے د رگئی کے اس ٹریننگ کیمپ کے قریب چھوڑنے بھی آیا ہو گا۔ اس سارے منصوبے میں کئی لوگ شامل ہوں گے۔ مذہب کے نام پر ابھارنے والے بھی ہوں گے اور جنت کی ٹکٹیں تقسیم کرنے والے بھی ہوں گے۔ 
اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو 17نومبر 2006ء کو پشت خرہ پشاور میں پولیس کی مو بائل پر خود کش حملہ آور ندیم الیکٹریشن کے بھائیوں نے جہادیوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی تھی۔ درگئی، واہگہ، آرمی پبلک سکول پشاور سمیت دیگر خود کش حملوں کے لیے کی جانے والی مشاورت کے متعلق قرآن پاک میں صاف الفاظ میں ارشاد باری ہے'' اے ایمان والو! جب تم آپس میں مشاورت کرو تو گناہ‘ حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کی مشاورت نہ کرو اور نیکی کے کا موں کی مشاورت کرو اور اﷲ سے ڈرو جس کی طرف اٹھائے جائو گے۔ ایسی مشاورت تو شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔(سورۃ المجادلہ)۔ اب اگر کوئی بد بخت ان دہشت گردوں کو اسلامی ملک کے بچوں‘ عورتوں اور پہرہ داروں پر حملوںکی جھوٹی ترغیب دیتا ہے تو ا ن کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے ''اے ایمان والو جب تم جہاد کو چلو تو تحقیق کر لو اور جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں‘‘۔( سورۃ نساء۔ آیت مبارکہ 93)۔ اور جب یہ دہشت گرد درگئی‘ پنجاب رجمنٹ سینٹر اور پشاور سکول میں داخل ہو رہے تھے تو ان کو پاک فوج کے جوانوں کی طرف سے السلام علیکم کہاگیا‘ لیکن قرآن اور اسلام سے نا بلد دہشت گردوں نے درگئی میں دھماکہ کر کے اسلامی ملک کے 42پہریداروں اور پشاور سکول کے134 بچوں اورسٹاف کے دس افراد کو شہید کر دیا۔ اب قرآن پاک میں اﷲ کریم تو یہ فرماتے ہیں کہ جو تمہیں السلام علیکم کہے‘ اسے کچھ نہ کہو لیکن لگتا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا قرآن پاک کی تعلیمات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور یقینا ایسے ہی دہشتگردوں اور ان کے سر پرستوں کے بارے میں قرآن پاک میں اﷲ کا فرمان ہے ''جنہوں نے ہماری آئتیں جھٹلائیں‘ انہیں عذاب پہنچے گا‘ بدلہ ان کی بے حکمی کا‘‘۔(سورہ انعام)۔ درگئی میں پاکستان کی سرحدوں کے پہریداروں اور واہگہ، پریڈ لین اور پشاور سکول کے بچوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد وں اوران کے ساتھیوں اور سرپرستوں کے بارے میں ارشاد خدا وندی ہے ''اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بو جھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ ہمیشہ اس میں رہے اور اﷲ نے اس پر غضب کیا‘ اس پر لعنت کی اور اس کے لیے تیار رکھا بڑا عذاب‘‘ (سورہ نساء)۔ 
اسلامی ملک کی سرحدوں کے محافظوں کا حوصلہ بلند ہے۔ ان کے کمانڈر کا نعرہ ہے کہ آخری دہشت گرد اوران کی آخری کمین گاہ تک پیچھا کریں گے۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کا مورال روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے ارادے مستحکم اور یقین کامل ہے کہ آخری فتح انہی کی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاچن کی برف پوش چوٹیوں‘ کشمیر کے مرغزاروں ،پنجاب کے میدانوں اور سندھ کے ریگزاروں اور آسمانوں اور سمندروں میں وطن عزیز کے چپے چپے کی اسی طرح حفاظت کررہے ہیں جیسا کہ انہیں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کا حکم ہے۔پاکستان کے ان پہریداروں کے بارے میںحدیث رسول مقبولﷺ ہے '' ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ وہ آنکھ جو اﷲ کے خوف سے روئی اور وہ آنکھ جو اسلامی ملک کا پہرہ دیتے ہوئے جاگتی رہی ہو ان دو آنکھوں کو دوزخ کی آگ کبھی نہ چھو سکے گی‘‘۔ (ترمذی) اور پاکستانی فوجیوں سمیت سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والا ہر جوان اور پاکستان کا ایک ایک شہری جو اﷲ اور رسول کریمﷺ کے احکامات اور ہدایات کی مخالفت اور کافروں کی مدد کرنے والے دہشت گردوںکے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں‘ ان کی آنکھیں بھی دوزخ سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو چکی ہیں اور وہ بدفطرت جو قرآن اور رسول کریمﷺ کی توہین کرنے والے کفار کی مضبوط طاقت کے سامنے پاکستان کی اسلامی فوج کو کمزور کر رہے ہیں‘ ان پر اﷲ کا غضب نازل ہو کر رہے گا اور اس غضب اور عذاب شدید میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مبتلا رہیں گے۔
پاکستانی فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کے جو لوگ کفار کے ہاتھوں تحریک طالبان کے نام سے کٹھ پتلی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ان کے بارے میں فرمان الٰہی ہے ''اور وہ جو اﷲ کی راہ میں مارے گئے‘ ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں‘ روزی پاتے ہیں‘ خوش ہیں اس پر جو اﷲ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اور خوشیاں منا رہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ ان شہیدوں کو نہ کچھ اندیشہ ہے‘ نہ کوئی غم۔ خوشیاں مناتے ہیں اﷲ کی حکمت اور فضل کی اور انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ اﷲ شہیدوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘۔ (اٰل عمران:171-169)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں