"MABC" (space) message & send to 7575

پٹرول سے چھترول

پی پی پی کے سابقہ دور حکومت میں ہم کالم نگاروں نے بادشاہ وقت کے حکم سے پل پر سے گزر کر شہر میں داخل ہو نے والے ہر شہری کی ''چھترول کرنے‘‘ کے حکم پر سخت احتجاج کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ پل پر ہماری چھترول کرنے والوں کی نفری بہت ہی کم ہے‘ اسے بڑھا کر چار گنا کر دیا جائے کیونکہ چند اہلکاروں کی وجہ سے چھتر کھانے والوں کی قطاریں لمبی لمبی ہو تی ہیں اور گھنٹوں انتظار کرنے سے عوام کا وقت بہت برباد ہورہا ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے‘ جو فہم و فراست اور الفاظ کے بہترین چنائو میں اپنی مثال آپ ہیں‘ دو ہفتے قبل عمران خان کے دورۂ پشاور کی ''ناکامی اور ان کے خلاف شدید عوامی احتجاج‘‘ کی خبر آنے پر خوشی سے بے قابو یا فرط جذبات سے بے حال ہو کر پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے پُرجوش اور مسرت بھری آواز میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ''خیبر پختونخوا کی عورتوں‘ بچوں اور جوانوں سمیت سب نے آج عمران خان کے خلاف گو عمران گو کے نعرے لگا کر انہیں پشاور سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے‘‘۔ انہوں نے اپنے چہرے پر خوشی سے ابھرنے والی لالی کو مزید نکھارنے کیلئے گردن کے گرد لپٹے ہوئے سرخ اونی مفلر کو مزید کستے ہوئے کہا ''وہ نعرہ جو عمران خان ہمارے قائد میاں نواز شریف کے خلاف کنٹینر پر کھڑے ہو کر لگایا کرتے تھے‘ اب ویسا ہی نعرہ پشاور کی گلیوں میں چاروں طرف ان کے خلاف گونج رہا ہے۔ خان صاحب کو یہ نعرہ اب جگہ جگہ سننا پڑے گا۔ انہیں بھاگنا نہیں چاہئے‘ لوگوں کو تو گو نواز گو والا نعرہ یاد بھی نہیں رہا اور اب اس نعرے کی جگہ گو عمران گو کا نعرہ ہی چاروں طرف گونج رہا ہے‘‘۔
پارلیمنٹ کے باہر اس ہنگامی اور بھر پور میڈیا کانفرنس کی کوریج کرنے والے ہمارے بہت سے دوستوں کا کہنا تھا کہ انہیں پرویز رشید صاحب سے یہ پوچھنے کا خیال ہی نہ رہا کہ اس نعرے کو‘ جو عمران خان کی ''شرارتوں اور حماقتوں‘‘ کے با وجود وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف چھ ماہ تک مسلسل گونجتا رہا ہے‘ اسے مسلم لیگ نواز کی عوامی حکومت نے نہلا دھلا کر با قاعدہ دفنایا ہے یا کہیں گڑھا کھود کر ایسے ہی پھینک دیا ہے؟۔ محترم پرویز رشید کی اس تاریخی اور دھواں دار پریس کانفرنس کی گونج ابھی فضا ہی میں تھی اور ہمارے میڈیا کے ان معزز اراکین کے سوال کرنے کے لیے سوچے گئے الفاظ ابھی ان کے حلق کے ارد گرد ہی گھوم رہے تھے کہ حالات نے عجیب پلٹا کھایا اور پرویز رشید صاحب کی ان تھک کوششوں سے دفنایا جانے والا عمران خان کے دھرنوں کا نعرہ کفن پھاڑ کر اس طرح نکلا کہ سب کو حیران کر گیا اور یہ مردہ سمجھا جانے والا نعرہ ملک بھر کی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں‘ ویگنوں کو دھکے لگاتے لوگوں اور پٹرول پمپوں کے باہر ایک ایک کلو میٹر لمبی قطاروں سے نکل کر پنجاب بھر میں سنائی دینے لگا۔ پاکستان میں پھیلے ہوئے ہر پٹرول پمپ اور ٹی وی کی سکرینوں پر پھر وہی نعرہ گونجنے لگا ہے جو عمران خان اپنے کنٹینر پر کھڑے ہو کر لگایا کرتے تھے۔۔۔۔! 
میں نے خواب میں دیکھا کہ محترم وزیر اطلاعات جو اس گم نعرے کے دوبارہ باہر آجانے کی وجہ سے اپنی بوجھل طبیعت کو بہلانے اور میڈیا کے سوالات کا سامنا کرنے سے بچنے کیلئے چند دن کیلئے چینی سرمایہ کاروں کے ہمراہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کسی‘ ممکنہ کہہ لیںیا مبینہ‘ پاور پلانٹ کی سائٹ دیکھنے کیلئے سرکاری 
ہیلی کاپٹر میں نکلے تو وزیراعظم ہائوس میں میڈیا سیل کی نگران اعلیٰ ماروی میمن بھی ساتھ ہو لیں۔ ہیلی کاپٹر میں ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے چینی وفد کے ارکان نے یک دم نیچے زمین کی جانب دیکھتے ہوئے زور زور سے بولنا شروع کر دیا۔ چینی وفد کی اس حرکت پر ہیلی کاپٹر کا پائلٹ بھی پریشان سا ہو کر رہ گیا۔ اس نے پرویز رشید صاحب کی جانب مڑ کر پوچھا کہ کیا ہوا سر؟ خیریت تو ہے؟ جب یہی سوال پرویز رشید صاحب نے ماروی میمن سے پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ عمران خان کو ہم نے ایک بار پھر شکست دے دی ہے۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میرے جلسے کا دس فیصد اکٹھا کر کے دکھا دو‘ اب اسے کہو کہ وہ بھی ہمارے ساتھ نیچے دیکھے جہاں لوگوں کے ہجوم جگہ جگہ میاں صاحب میاں صاحب کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ماروی میمن کی سنی ان سنی کرتے ہوئے پرویز رشید اپنے چینی سرمایہ کاروں سے پوچھنے لگے کہ بھائی کیا معاملہ ہے‘ آپ کس بات پرشور مچارہے ہو؟ وہ کہنے لگے کہ ہمارے ہیلی کاپٹر کا پائلٹ غلطی سے راستہ بھول کر چین میں داخل ہو گیا ہے۔ پائلٹ بھی پریشان ہو گیا کہ ان کے مہمان کیا کہہ رہے 
ہیں۔ اس نے کمپیوٹر پر اور پھر راڈار کو اچھی طرح دیکھتے ہوئے کہا ''جناب ہم اپنے ہی ملک میں بالکل صحیح سمت پرواز کر تے ہوئے جارہے ہیں‘‘ لیکن چینی مہمان یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہو رہے تھے۔ ان سب نے نیچے زمین کی جانب اشارے کرتے ہوئے زور زور سے '' گریٹ دیوار چین ‘‘ کے نعرے مارنے شروع کر دیئے۔ پائلٹ نے یہ سن کر بے یقینی دور کرنے کیلئے نیچی پرواز کرنے کے بعد چند لمحے بہ غور نیچے دیکھا اور پھر ایک بہت بڑا قہقہہ لگاتے ہوئے اپنی سیٹ پر ہنستے ہنستے دُہرا ہو گیا‘ جس سے ہیلی کاپٹر کا توازن بھی تھوڑی دیر کے لیے بگڑ کر رہ گیا۔۔۔ چینی وفد کے اراکین اور ماروی میمن سمیت سب لوگ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کی اس نامعقول حرکت سے کچھ پریشان سے ہو گئے جس پر ہمارے محترم وزیر اطلاعات نے اپنی برہمی چھپاتے ہوئے پائلٹ سے کہا ''کیا بات ہے‘ آپ کو نیچے کیا نظر آیا ہے جس پر آپ قہقہے لگانا شروع ہو گئے ہیں؟‘‘ پائلٹ ایک بار پھر زور زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگا ''سر نیچے نہ تو نواز لیگ کا کوئی ہجوم ہے اور نہ ہی ہم راستہ بھول کر چین کی جانب نکل آئے ہیں جسے ہمارے وفد کے معزز اراکین گریٹ دیوار چین سمجھ رہے ہیں‘ وہ دیوار چین نہیں بلکہ نیچے سڑکوں پر پٹرول پمپوں کے باہر عوام کے ہجوم اور لمبی لمبی نہ ختم ہونے والی گاڑیوں کی قطاریں ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں