دانا لوگ کہتے ہیں کہ حکمران دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو اپنی جستجو سے نئے راستے تلاش کرتے ہیں اور اپنی قوم کو ترقی اور انصاف کی نئی منزلوں سے روشناس کراتے ہیں۔ دوسرے وہ جو نئی نسل کیلئے راستے کھولنے کی بجائے راستوں کو بند کر دیتے ہیں۔ پہلی قسم کے حکمران عوام کی دعائوں سے اپنے دامن بھر لیتے ہیں اور آخر الذکر حکمران اپنی ہی کھودی ہوئی کھائیوں میں جاگرتے ہیں!! دو ماہ قبل لاہور کی مال روڈ پر نکالی جانے والی ریلی میں شریک نابینا افراد پر لاٹھی چارج کیا گیا۔کئی نابینا افراد کو دھکے دیتے ہوئے تھپڑ مارے گئے اور اس ڈھائے جانے والے ظلم کی پاداش میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے نوٹس خاص سے معطل کئے جانے والے ڈی ایس پی عبد اﷲ جان بحال ہونے کے بعد لاہور مسلم ٹائون کے ایس ڈی پی او کا چارج لینے جا ہی رہے تھے کہ اچانک بھاٹی گیٹ تھانہ کے باہر اسلامیہ ہائی سکول کے بچے جو اپنے سکول کو سرکاری کنٹرول میں دیئے جانے کیلئے خلاف احتجاج کر رہے تھے ،پنجاب پولیس کے ہتھے چڑھ گئے ۔اس دن لاہور کی تاریخ نے ایک عجب منظر یہ بھی دیکھا کہ بچوں کے سامنے ان کے والد کو پولیس اس طرح زدوکوب کررہی تھی ،گویاکوئی شہر فتح کیا جارہا ہو۔ان بچوں اور ان کے والدین کا قصور یہ تھا کہ وہ معیاری تعلیم چاہتے تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ ملالہ کی طرح وہ بھی تعلیم کی شمع روشن کریں۔ وہ بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی '' لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ پڑھا کریں لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ جس طرح پشاور سکول پر حملہ آوروں نے نعرہ تکبیر بلند کرنے کے بعد معصوم بچوں کو گولیوں سے بھوننا شروع کر دیا تھا اسی طرح ان کی جان کے محافظ بھی ان پر پل پڑیں گے؟ایسا لگتا ہے کہ اس طرح سکولوں کے یہ بچے اپنے بچپن سے ہی پولیس کی مار کھانے کے عادی ہو جائیں گے۔ '' یہ ہے نئی نسل کو تیار کرنے کا صحیح طریقہ‘‘۔کہتے ہیں کہ جیسے ہی یہ خبر ٹی وی کی سکرینوں کی زینت بنی تو لاہور میں اسی طرح کہرام مچ گیا جس طرح سولہ دسمبر کو پشاور میں مچا تھا۔ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ اور اس کے ارد گرد کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی بہت سی مائیں ننگے پائوں ہی گھروں سے بھاگ کر اپنے بچوں کے سکولوں کی طرف دوڑ پڑیں۔ ہر طرف قیا مت کا سماں تھا ۔جب یہ خبر شہر اقتدار کے کانوں تک پہنچی تو میڈیا نے یہ خوش خبری دے دی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے تین دسمبر کو لاہور مال روڈ پر نابینا افراد کو مارنے پیٹنے اور زمین پر گھسیٹنے کے خلاف جس طرح ''نوٹس‘‘ لیا تھا اسی طرح انہوں نے اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ کے بچوں پر لاٹھی چارج کرنے والوں کے خلاف بھی'' نوٹس‘‘ لے لیا ہے۔ اور وہ لوگ جو شہباز شریف کو اچھی طرح جانتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب وہ حرکت میں آتے ہیں تو یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ '' نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا‘‘۔ ان کے تو ذرا سے نوٹس سے آدھا لاہور ہل جاتا ہے۔۔۔ میرے استاد محترم گوگا دانشور کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بھاٹی گیٹ واقعے کے نوٹس سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے نابینا افراد کو مارنے پیٹنے والوں کے خلاف بھی جونوٹس لیا تھا اس کا بھی غالباً کچھ نہیں بنا۔ گوگا دانشور بیچارے دیہاتی سے آدمی ہیں۔ انہیں کون بتائے کہ وہ نا بینا افراد نہیں تھے بلکہ وہ تو مسلم لیگ نواز کے کارکن تھے اور اسی لیے اس واقعے میں ملوث ڈی ایس پی کو بحال بھی کر دیا گیا ہے۔ اس میں کسی کا قصور نہیں بلکہ لاہور پولیس سمیت ان کے سربراہ کی بے خبری کہہ لیں یا پنجاب پولیس کی بے صبری کہ انہوں نے3 دسمبر کو نواز لیگ کے کارکنوں پر ہی دن دیہاڑے ڈنڈے برسا دیئے ۔شاید موقع پر موجود کسی نے پنجاب پولیس کے جوانوں کو بتانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی تھی کہ یہ مٹھی بھر لوگ جو لاہو ر کی مال روڈ پر ایک چھوٹے سے جلوس کی صورت میں نعرے لگاتے اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے اپنے ہی خادم اعلیٰ شہباز شریف کے دفتر 90 شاہراہ قائد اعظم کی طرف تشریف لا رہے تھے یہ تحریک انصاف یا کسی دوسری شرپسند
جماعت سے تعلق رکھنے والے نہیں تھے بلکہ وہ تو اپنی ہی محبوب حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ نہ جانے پنجاب کی عوام دوست پولیس کو اس دن کیا ہوا کہ انہیں اپنے ہی یہ متوالے برے کیوں لگنے لگے اور وقتی اشتعال سے انہیںیہ خیال ہی نہ آیا کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں۔ خدا جانے اس وقت ان سب کی آنکھوں کے سامنے کون سا پردہ آگیا۔میں نے جب یہی سوال اپنے استاد محترم گوگا دانشور سے کیا تو وہ اپنے سر کر کچھ دیر کھجانے کے بعد بولے میرا خیال تو یہ ہے کہ چونکہ ان سب کے ہاتھوں میںچھڑیاں تھیں اب چونکہ پولیس کے یہ سپاہی دیہاتی سکولوں سے میٹرک تک کی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر نکلتے ہیں ا س لیے انہیں یہ خیال ہی نہ رہا کہ ان اندھوں معذوروں کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی سفید چھڑیاں ان کو مارنے کیلئے نہیں ہیں بلکہ جن چھڑیوں کا رنگ سفید ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ دیکھ نہیں سکتے اور ہمارے معاشرے کے خصوصی افراد میں شامل ہوتے ہیں جنہیں ہمدردی اور پیار کی شکل میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔بس ان کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی سفید چھڑیوں نے ساری غلط فہمی پیدا کر دی تھی۔ یہاں مجھے ایک خیال آیا کہ اگر ایسے ہی خصوصی افراد جدید ممالک میں ایسا کوئی جلوس نکالتے تو ان کے ساتھ کیا سلوک
ہوتا۔ یورپ اور امریکہ میں معذور افراد کو صرف خصوصی افرا د کا نام نہیں ملا لیکن انہیں وہ تمام سہولیات اور عزت ملی جن کا ذکر ان کے قوانین میں کیا گیا۔ وہاں خصوصی افرا د کے لئے خصوصی کائونٹرز قائم ہیں۔اسی طرح بسوں‘ ٹرینوں اور جہازوں میں سفر کرنے کے لئے بھی خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں تاکہ انہیں کہیں پر بھی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کے لئے خصوصی الائونس بھی ہوتے ہیں اور انہیں ہر طرح کی سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ سفر کرنے کے لئے انہیں خصوصی ڈسکائونٹ دیا جاتا ہے۔ ان کے لئے خصوصی گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔ ان پر ہر طرح کا ٹیکس معاف ہوتا ہے۔ کاش یہ سب ہمارے ہاں بھی ہوتا اور ہمارے ہاں بھی خصوصی افراد کو وہی تکریم حاصل ہوتی جو انہیں جدید ممالک میں حاصل ہے۔
جب ان نا بینا افراد پر لاٹھیاں برسائی جا رہی تھیں تو موقع پر موجود پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کے ہتھ چھٹ متوالے جب ڈنڈے اٹھائے ہوئے ان کی طرف بڑھے تو ایک عمر رسیدہ شخص چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا رک جائو رک جائو یہ مسلم لیگ نواز اور ان کی حکومت کے کارکن ہیں۔ انہیں مت مارو اور انہیں روکنے کی بجائے عزت و احترام سے آنے دو ۔جب اس سے ایک پولیس والے نے پوچھا۔تمہیں کیسے پتہ ہے کہ سفید چھڑی اوراور کالی عینکیں لگائے ہوئے یہ جلوس والے نواز لیگ کے حامی اور متوالے ہیں تواس بوڑھے شخص کا کہنا تھا '' کیا آپ دیکھ نہیںرہے کہ یہ سبھی نا بینا ہیں‘‘!