''علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے‘‘۔ اس حدیث کی روشنی میں آج کے چین کی طرف دیکھیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں کہ پاکستان سے ایک سال بعد آزادہونے والا ملک کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ وہ چینی جنہیں افیون اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز تھی ان کے بارے میں کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ مائوزے تنگ اور چو این لائی کی قیادت میں یہ اس طرح خواب گراں سے جاگ کر پوری دنیا میں چھا جائیں گے کہ کرہ ارض کے ہر طرف '' چین کی بانسری‘‘ بجاتے دکھائی دیں گے۔ پاکستانیوں کے لیے تو اب یہ بہت ہی ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ چینی زبان سیکھیں اور اس پر مکمل عبور حاصل کریں۔ چین کی ایکسپورٹ دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہو چکی ہے اور اب صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ چین سب سے بڑی تجارتی قوم بن کر ابھر چکا ہے۔ چینی لیڈر شپ کا کمال یہ ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس پر خوب سوچ بچار کرتے ہیں اور جب وہ کسی متفقہ فیصلے پر پہنچتے ہیں تو اس پر سختی سے عمل در آمد کرتے ہیں۔ پاکستانی لیڈر شپ کی طرح نہیں کہ جنرل ضیا سے نواز شریف اور جنرل مشرف اور پھر نواز شریف تک سب نے کالا باغ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا اور پھر پیچھے ہٹ گئے۔
امریکہ جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے نام سے پہچاناجاتا ہے، اگر اس کی گزشتہ دس سال کے خسارے کو سامنے رکھیں تو اس وقت وہ صرف چین کا2.3 ٹریلین ڈالرسے بھی زیا دہ کا مقروض ہو چکا ہے اور چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس وقت کرۂ ارض پر پر جتنے بھی ممالک ہیں ان سب میں چین وہ واحد ملک ہے جس کے زرمبادلہ کے ذخائر سب سے زیا دہ ہیں۔
وہ چین جو کل تک سائیکل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا‘ جس کی پہچان ہی یہ تھی کہ ایک سرے سے دوسرے تک چاروں جانب صرف سائیکل ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔۔۔۔آج دنیا بھر میں نئی کاروں کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔یہ جان کر سب حیران رہ جائیں گے کہ امریکہ میں سال میں جتنی کاریں تیار کی جاتی ہیں چین اس سے دو گنا زیا دہ کاریں تیار کرنے والا ملک بن چکا ہے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ کی سب سے مشہور'' جنرل موٹرز‘‘ اس وقت چین میں کاریں تیار کرنے کے گیارہ نئے پلانٹس پر کام کر چکی ہے۔
سونا جو کبھی چین میں دیکھا بھی نہیں جاتا تھا‘ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ دنیا میں سب سے زیا دہ سوناچینی حکومت کی ملکیت ہے اور اولمپکس میں حصہ لینے والے امریکی کھلاڑیوں کے لیے یونیفارم بھی چین ہی تیار کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں جگہ جگہ نصب کیے جانے والی مصنوعی کرسمس درختوں کا85 فیصد چین میں تیار ہوتا ہے اور نیو یارک میں نئے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں لگایا جانے والا تمام شیشہ بھی چین کا ہی تیار کر دہ ہے۔
امریکہ میں جس قدر بھی توانائی استعمال کی جا رہی ہے اس کو اگر جمع کیا جائے تو چین امریکہ سے کئی گنا زیا دہ توانائی استعمال میں لا رہا ہے اور اس وقت دنیا میں چین واحد ملک ہے جو ہوا اور سورج کی روشنی سے سب سے زیا دہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیا دہ مینو فیکچرنگ بھی چین میں ہو رہی ہے۔ اس سے اندازہ لگا یا جا سکتاہے کہ سب سے زیا دہ ہنر مند افرادی قوت بھی چین کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ہے۔اس وقت تعمیری کاموں کے لیے سیمنٹ کی بات کی جائے تو جتنا سیمنٹ دنیا بھر کے ممالک میں استعمال ہو رہا ہے، چین ان سب سے مجموعی طور پر زیا دہ سیمنٹ استعمال کرنے والا ملک بھی بن چکا ہے۔
چین اور امریکہ کی کوئلے کے استعمال اور سٹیل کی پیداوار ی مناسبت سے بات کی جائے تو اعداد و شمار اس قدر حیران کن ہیں کہ چین امریکہ سے تین گنا زیا دہ کوئلہ اور گیارہ گنا زیا دہ سٹیل پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
کسی بھی ملک کے مرکزی دفاعی سسٹم میں سب سے ضروری اور تکنیکی لحاظ سے اہم ترین حصوں کی سپلائی اس وقت چین پوری کر رہا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی ملک اور قوم کے پاس ان اہم ترین تکنیکی حصوں کی کمی ہو جائے تو اس کا دفاعی سسٹم کس حد تک متاثر ہونے کا امکان ہو گا۔ چین میں شائع ہونے والے سائنسی مقالات اور تحقیقی مضامین کے بارے میں دنیا بھر کے سائنسدان اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ اس وقت چین دنیا بھر میں سب سے سر فہرست ہے بلکہ یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ دنیا بھر سے شائع ہونے والے تمام مجموعی سائنسی تحقیقی مضامین کا موازنہ کیا جائے تو چین کی تحقیق معتبر ترین شمارکی جا سکتی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین میں اس وقت دنیا بھر سے زیا دہ پانی اور بجلی کے 26 ہزار سے زائد ڈیم ہیں جبکہ پاکستان کے پاس دس سے بھی کم ڈیم ہیں ۔ امریکی صدر بارک اوباما کے دوسرے دورہ بھارت کے آغاز سے بھی پہلے جس طرح دنیا بھر میں چرچا کیا جا رہا تھا وہ اپنی جگہ لیکن اسی وقت پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو چینی حکومت نے جس طرح چین کے دورے پر بلا کر عزت و تکریم دی ہے، وہ بھی دنیا بھر کے فوجی اور سفارتی حلقوں میں اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب پاکستان اور چین کو تجارت سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے کا سٹریٹیجک پارٹنر بننا ہو گا۔ عوامی جمہوریہ چین کی قیادت اس بات سے بھی یقینا واقف ہو گی کہ بحر ہند میں بھارت اپنی طاقت اور جنگی صلاحیتوں کو مسلسل بڑھانے میں مصروف عمل ہے اور امریکہ اس سلسلے میں بھارت کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے کیونکہ امریکہ کی خواہش ہے کہ چین کو بھارت کے ذریعے بحر ہند تک ہی محدودکر کے رکھ دیا جائے۔چین کے لیے لازمی ہوتا جا رہا ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور معیشت کے ساتھ ساتھ بھارت اور امریکہ کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنی انرجی سکیورٹی کی ضروریات کو سب سے زیا دہ مد نظر رکھتے ہوئے بحیرہ ہند میں اپنی نیول طاقت اور صلاحیتوں میں بھر پور اضافہ کرے۔۔۔۔اگر اس کے ایکسپورٹرز کیلئے افریقہ کی منڈیوں تک رسائی ضروری ہے تو ساتھ ہی چین کی دفاعی اور معاشی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے کے لیے گوادر کی بندرگاہ بھی اہمیت کی حامل ہے۔سب سے اہم پاکستان اور چین کی دوستی ہے جو خطے میں استحکام اور معیشت کے فروغ کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔