"MABC" (space) message & send to 7575

عاقل \'\'RAW\'\'عقل باید

کچھ'' ففتھ کالمسٹ‘‘ ملک اور پاک فوج کی بد نامی اور اس کے اداروں کو دنیا بھر میں ،جہاں بھی انہیں موقع ملے، بدنام کرنااپنا دین ودھرم سمجھتے ہیں۔اسی ملک کے خلاف زہر پھیلانے میں پیش پیش ہیں،جس کا کھاتے اور پیتے ہیں۔
اسی قبیل کے ایک عاقل نامی نام نہاد پاکستانی نے 29 ستمبر2014 ء کو سائوتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کولمبیا یونیورسٹی میں اپنی کتاب''The Army and Democracy: Military Politics in Pakistan''کی،جسے ہارورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے،تقریب رونمائی کرائی۔ جس میں تیس کے قریب مختلف سکالرز، یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبران اور طلباء نے شرکت کی۔تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پاکستان اور اس کی افواج کو کئی گھنٹے تک رگیدنے اور اس کے خلاف گھٹیاپروپیگنڈا کرنے کے لیے باقاعدہ سوال و جواب کا سلسلہ بھی رکھا گیا ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی کتاب کی رونمائی کے موقع پر اس کتاب کے مصنف اور چند دوسرے لوگ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن دنیا بھر سے چن چن کر ایسے لوگوں کو اکٹھا نہیں کیا جاتا جو سوالات کے حوالے سے اپنے مخصوص نظریات اور خیالات کیلئے جانے جاتے ہوں۔
تقریب کے میزبان اور کتاب کے مصنف خیبر پختون خوا سے تعلق رکھتے ہیں اور خیر سے کولمبیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف Illinois، یونیورسٹی آف شکاگو اور یونیورسٹی آف کولمبیا میں پڑھاتے رہے ہیں۔آج کل ایک ہی مشن پر دنیا بھر کے دورے کرتے پھر رہے ہیں تاکہ پاکستان کی افواج اور اس کے ا داروں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ اس کتاب کے مصنف نے پاکستان اور اس کی افواج کے بارے میں وہی باتیں لکھی ہیں جو بھارت کا میڈیا اور پاکستان کے میڈیاکے ایک خاص حصہ کا اوڑھنا بچھونا ہے۔مصنف نے اپنی اس کتاب میں جہاں اور بہت سی مضحکہ خیز باتیں کہی ہیں وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو بھی حالات ہیں اور جس دہشت گردی کی وجہ سے ملک کے حالات خراب ہیں اس کی وجہ بھی پاکستانی فوج ہی ہے ۔
مذکورہ کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران سوالات و جوابات کے طویل سلسلہ میں پوچھے گئے سوالات میں سے بعض کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ تقریب صرف اور صرف پاکستان کی اہم ترین خفیہ ایجنسی کے خلاف بھارت کی چلائی جانے والی اس تشہیری مہم کا حصہ تھا جو بھارت، اسرائیل اور امریکہ سمیت دوسرے ممالک نہ جانے کب سے اپنی زبانوں سے چپکائے ہوئے ہیں۔اس تقریب میں کئے جانے والے ابتدائی سوال میں بعض حساس معاملات میں پاکستان کی آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا وہی پرانا شوشہ چھوڑا گیا ، جو ہمارے میڈیا کا ایک حصہ دہراتا رہا ہے۔
دوسرے سوال میں الزام لگایا گیا کہ پاکستان کے میڈیا ہائوسز اور ان سے متعلق صحافیوں کو کنٹرول کیاجاتا ہے ۔اس سوال بارے جو کچھ وہاں کہا گیا وہ تو اپنی جگہ لیکن اگر مصنف پاکستان کے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو تقریب سے پہلے دیکھنا گوارا کر لیتے تو انہیں یہ کہتے ہوئے سو بار سوچنا پڑتا کہ اتنا بڑا جھوٹ کس طرح بولا جائے گا کہ پاکستان کا میڈیا کنٹرول کیا جاتا ہے۔
چوتھے سوال کی تفصیل میں جانے سے پہلے لائن آف کنٹرول اور شکر گڑھ اور سیالکوٹ کے سرحدی علا قوں میں بھارت کی گزشتہ چھ ماہ سے مسلسل گولہ باری سے پاکستانیوں کی ہونے والی ہلاکتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہو گا ؛کیوںکہ اس چوتھے سوال میں پاک فوج کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا گیا کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مل کر پاک بھارت تعلقات کو معمول پر نہیں آنے دے گی۔ایسا لگتا ہے کہ یہ سب لوگ آپس میں بے معنی قسم کے سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے ،جو یہاں پر بھی بہت سے ''پاکستانیوں‘‘ نے اپنا یا ہوا ہے کیونکہ سرحدوں پر بھارت کی بلا اشتعال گولہ باری سے ہونے والی درجنوں پاکستانی شہادتوںکا معاملہ سب کے سامنے ہے۔کتاب کی رونمائی میں پوچھے جانے والے پانچویں سوال کے بعد یہ ظاہر ہو گیا کہ اس کتاب کی چھپوائی اور تقریب کا انتظام اور شرکاء کو لانے لے جانے کے تمام اخراجات کن
لوگوں نے اٹھائے ہوں گے؟ اس الزام میں کہا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان میں چلائی جانے والی عسکریت پسندی کی تحریکوں کے بارے میں پاکستانی فوج کی جانب سے بھارت اور امریکہ پر عائد کئے جانے والے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔۔۔ اگر مصنف یا اس تقریب میں شامل سوالات کرنے والے لوگ بھارتی وزیر اعظم مودی کے سکیورٹی ایڈوائزراجیت ددول کا تحریک طالبان اور بھارت کے درمیان ہونے والے گٹھ جوڑ پر بھارتی یونیورسٹی میں دیا جانے والا لیکچر ایک بار یُو ٹیوب یا سوشل میڈیا پر سن لیں تو انہیں اپنے سوالوں کے جوابات ملنے میں آسانی ہو جاتی ۔
مصنف نے اپنی کتاب میں انتہائی بھونڈا اور زہریلا جھوٹ اگلتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان کی فوج نے کبھی پنجابیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ وہ جو کچھ بھی کرتی ہے، فاٹا، بلوچستان اور سندھ کراچی میں کرتی ہے۔ اب اگر کوئی جان بوجھ کر اندھا اور بہرا ہو جائے تو اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔اب تک جتنے بھی لوگ ملٹری کورٹ کے ذریعے پھانسی لگائے گئے ہیں وہ سوائے ایک کے باقی سب کے سب پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی توتھے۔کیا بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں دہشت گردوں کے ہاتھوں پشتونوں کا قتل عام مصنف کونظر نہیں آرہا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں