"MABC" (space) message & send to 7575

باسی کڑھی میں ابال

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو بیٹھے بٹھائے نہ جانے کیا سوجھی کہ اچانک اپنے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف ایک نیا طوفان اٹھا دیا ہے۔ اب کی بار پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی نشانے پر ہیں۔ ان پر 1993ء میں بھارت میں بم دھماکوں کی اجا زت دینے اور دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں اور یوں پاکستان اور اس کی سیا سی قیا دت کو بدنام کرنا شروع کر دیاہے۔ اس نئی مہم کا اندازہ 2015ء کا سال شروع ہوتے ہی بھارت کے ذرائع ابلاغ کی کارفرمائی سے ہونے لگا تھا۔ سب سے پہلے تو بھارت کا سرکاری سوشل میڈیا( ون انڈیا) پاکستان کے خلاف پرانے الزامات نئے انداز میں لے کر سامنے آیا۔ اس کے بعد بھارت کے دکن ہیرالڈ نے اپنی تیرہ جنوری2015ء کی اشاعت میں ایک عجیب کہانی شائع کی کہ نواز شریف کے بھارت کے بارے میں دو چہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ الزام اس بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے لگایا جا رہا ہے جو نواز شریف کو دوستی بس اور واجپائی کے اعلان لاہور کے کارناموں کی وجہ سے بھارت دوست کی حیثیت سے پکارا کرتی ہے۔ 
حال ہی میں بھارت کے ایک سابق سفارت کار راجیو ڈوگرا کی کتاب ''Where Borders Bleed'' روپا پبلیکیشن نے شائع کی ہے۔ اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پاکستان کے وز یر اعظم میاں نواز شریف نے 1990-93ء میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران بھارت میں دہشت گردی کی کئی کارروائیاں اپنی اجازت سے کروائیں؟ آج اس بات کو بائیس سال گذرچکے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف راجیو ڈوگرا کراچی کے بھارتی قونصلیٹ میں بطور قونصل جنرل فرائض انجام دے چکے ہیں۔ انہیں یہ سارے الزامات اتنے سال گذرنے کے بعد اب ہی کیوں یاد آئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب کا ذائقہ بدلنے کے لیے اس میں پاکستان دشمنی کا مرچ مصالحہ لگایا ہو‘ تاکہ اسے زیا دہ دلچسپ اور بھارت میں مقبول بنایا جا سکے؟ مقام افسوس ہے کہ پاکستان ہمیشہ بھارت کے ساتھ سنجیدگی سے امن کی بات کرتا رہا ہے اور اب بھی اس کی کوشش یہی ہے کہ باہمی سفارتی تعلقات کو پُرامن تعلقات میں ڈھالا جائے تاکہ دونوں قوموں کے ڈیڑھ ارب سے زائد لوگ اپنی معاشی مشکلات کا حل تلاش کر سکیںلیکن پاکستان کی جانب سے دوستی اور امن کی بات کو ہمیشہ اس کی کمزوری سمجھا گیا اور بھارت نے اس دوستی کے پیغام کے جواب میں بزدلی کے طعنے دینا اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان بھارت سے کشمیر اور سیاچن سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر سنجیدگی سے بات کرنے کی درخواستیں کر رہا ہے‘ مگر اس کے جواب میں بھارتی فوج روزانہ پاکستان کی سرحدوں پر گولہ باری کیے جا رہی ہے‘ جس سے اب تک درجنوں لوگ شہید اور سینکڑوں پاکستانی شہری اور فوجی زخمی ہو چکے ہیں‘ کیا یہ کتاب جلتی پر تیل ڈالنے کیلئے لکھی گئی ہے؟ امریکی صدر اوباما کی بھارت آمد کے موقع پر "Where Borders Bleed'' کے عنوان سے لکھی جانے والی کتاب کی رونمائی کے اس کے سوا اور کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ 
محسوس ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف کوئی نیا ''ایڈونچر‘‘ کرنے جا رہا ہے‘ ورنہ بھارتی را کی زیر نگرانی کام کرنے والے ون انڈیا جیسے سوشل میڈیا پر 1993ء کی باسی کڑھی میں ابال لانے کی کیا ضرورت تھی؟ بھارت میں اس وقت33 سے زائد دہشت گرد تنظیمیں سرکار کی نگرانی میں مسلمانوں اور بھارت کی دوسری تمام اقلیتوں کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ ان حالات میں اس کی طرف سے دوسروں پر دہشت گردی کے الزامات لگانااچھا تو نہیں لگتا۔ بھارت کبھی اپنے گریبان میں جھانکے تو اپنے گھنائونے کرتوت دیکھنے کے بعد مارے شرم کے شاید دوبارہ نظریں اٹھانے کے قابل ہی نہ رہے۔بھارت کے راجیو ڈوگرا جیسے سابق سفارت کار جو کبھی پاکستان کے وزیر اعظم تو کبھی آئی ایس آئی پر دہشت گردی کے الزامات لگاتے نہیں تھکتے‘ انہیں بھارت کی ریا ست جے پور میں بولا جانے والا تاریخ کا ایک بہت بڑا سچ کیوں یاد نہیں آتا؟ یہ سچ جب بے نقاب ہوا تھا تو اس وقت کوئی اس پر بات کرنے پر بھی تیار نہ تھا۔ وہ امریکی ا ور مغربی میڈیا جو پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کے لیے بھارت کی آواز میں آواز ملانا اپنا دین دھرم سمجھتے ہیں اور دنیا بھر میں شور مچاتے رہتے ہیں‘ تب ایک دوسرے کی طرف ٹکر ٹکر دیکھتے رہے لیکن چپ رہے۔ ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئی تھیں۔ بھارت اور دنیا بھر میں ہر طرف عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی اور سب کے ہاتھ پائوں سن اور زبانیں منجمد ہو چکی تھیں۔ شاید اس لئے کہ اس سچ نے پاکستان جیسے مسلمان ملک کو دہشت گردی سے باعزت بری کردیا تھا‘ جو ہر وقت دنیا بھر کے میڈیا کے نشانے پر رہتا ہے۔ 
20 جنوری کوبھارت کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے حکمران کانگریس کے اجلاس سے خطاب میںتسلیم کر لیا تھا کہ بھارت میںہونے والی ہر دہشت گردی میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی پروردہ ذیلی تنظیمیں شیو سینا،آر ایس ایس اور دیگر ہندو تنظیمیں ملوث ہیں۔ حکمران کانگریس جماعت کے جے پور میں ہونے والے اس اجلاس میں اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی کو کانگریس کا نائب صدر منتخب کیا گیا۔ اسی اجلاس میں سمجھوتہ ایکسپریس‘ ملیگائوں‘ مکہ مسجد اور بھارت کی دیگر جگہوںپر ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ داروں کی اصلیت بھی ظاہر کی گئی۔ یہ ایک ایسا سچ تھا جو بھارتی حکومت کا انتہائی اہم اور خفیہ معلومات رکھنے والا وزیر داخلہ بول رہا تھا۔
13 فروری2010ء کو پونا کی مشہور جرمن بیکری میں بم دھماکہ ہوا تو اگلے ہی لمحے اس کا الزام حسب معمول پاکستان کے سر تھوپ دیا گیا۔ اس وقت بھی کچھ اندرونی حلقے دبی زبان میں اشارہ کر رہے تھے کہ پونا بیکری دھماکے کے اصل مجرموں کا سراغ لگانا ہے تو بھارتی فوج کے کرنل پروہت اور میجر رمیش کے ساتھی سنیل جوشی اور سدھاکر کو شامل تفتیش کیا جائے کیونکہ پونا دھماکے کی ملنے والی رپورٹ کے مطابق اس میں امونیم نائٹریٹ فیول استعمال کیا گیا تھا جس میں آر ڈی ایکس بطور بوسٹر شامل تھی اور ممبئی پولیس کے چیف ہیمنت کر کرے نے اکتوبر2009ء میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بھیجی جانے رپورٹ میں لکھا تھا کہ میری تفتیش کے مطا بق 2006ء میں جب کرنل پروہت دیولائی چھائونی کے اسلحہ ڈپو میں تعینات تھا‘ کئی ماہ تک وہاں سے اسلحہ اور اسی طرز کا بارود چرا کر پونا کے ایک انتہا پسند ہندو کے ملکیتی جمنازیم میں منتقل کرتا رہا اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس نے بھگوان داس نامی ایک شخص کو 60 کلو آر ڈی ایکس بھی دی‘ جس کے گروپ میں شامل رام نرائن کلنگرم‘ سمیر ڈینگ اور پرگیا سنگھ نے سمجھوتہ ایکسپریس کو تباہ کیا۔ ان ثبوتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کرنل سری کانت پرساد پروہت کاگروپ ہی مالیگائوں،موداسا، مکہ مسجد حیدر آباد، درگاہ اجمیر شریف، جے پور اور سمجھوتہ ایکسپریس کے بم دھماکوں میں ملوث ہے‘ لیکن اس وقت ممبئی پولیس کے ایڈیشنل کمشنر انسداد دہشت گردی سیل پرمبیر سنگھ پر ہندوستانی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس کے چیف نے سخت دبائو ڈال کر اسے دبا دیا‘ تاہم وہ رپورٹ جو چند ہاتھوں میں تیار ہوئی تھی‘ ایک سے دوسرے اور پھر کئی ہاتھوں تک پہنچ چکی ہے...!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں