ابھی سعودی فرمانروا شاہ عبد اﷲ کی وفات کی خبریں میڈیا کی شہ سرخیوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں کہ اچانک ٹی وی سکرینوں پر‘ وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید نمودار ہوئے ۔ان کا نشانہ سوائے عمران خان کے‘ اور کون ہو سکتا تھا۔ جناب پرویزرشید نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے فرمایا کہ وہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد جھوٹ بولنے کی عادت سے باز نہیں آئے۔ مزید فرمایا کہ لاابالی پن کی وجہ سے انہوں نے اپنی سیا ست کا خاتمہ تو کر ہی لیا ہے‘ اب اپنی عاقبت کو سدھارنے کی کوشش کریں۔ پھر نصیحت فرمائی کہ عمران خان کو مسلم لیگ نواز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سچ کی عادت اپنانا ہو گی کیونکہ اب ان کا جھوٹ چلنا ممکن نہیں رہا اور عوام ان کی باتوں پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں۔
ان کی پریس کانفرنس سے اگلے روز جناب اسحاق ڈار نے تحریک انصاف کی جانب سے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے مطالبے کی ایک ایک شق پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ نواز کل ہی عمران خان کی پریس کانفرنس کا جواب دے سکتی تھی لیکن کل چونکہ ہم سرکاری طور پر شاہ عبداﷲ کی وفات پر سوگ کی حالت میں تھے‘ اس لیے ان کی پریس کانفرنس کا جواب آج دے رہے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ عمران خان نے پاکستان کے بعد سعودی عرب کی عزت و حرمت کا خیال نہ کرتے ہوئے جھوٹ بول کراپنی آخرت بھی خراب کر لی ہے۔ ڈار صاحب کی اس میڈیا ٹاک پر جب عمران خان سے بات کی گئی تو ان کا کہنا
تھا کہ وہ تو مدینہ منورہ میں بیٹھ کر اس لیے پریس کانفرنس کر رہے تھے تاکہ تاجدار مدینہﷺ کے پاس بھی اپنی اور پاکستانی عوام کی امانت میں خیانت کا مقدمہ رجسٹر کروا سکیں۔ حضورؐ کو بھی بتاسکیں کہ پاکستان کے2013ء میں ہونے والے انتخابات میں کی جانے والی دھاندلی کے خلاف پاکستان کے عوام نے نہ تو دھوپ کی شدت دیکھی اور نہ ہی سردیوں کی راتوں کی بارشوں اور یخ بستہ ہوائوں سے گھبرائے۔ ہم نہ تو زہریلی آنسو گیس کے گولوں سے ڈرے اور نہ ہی پولیس کی گولیوں اور لاٹھیوں سے۔۔۔۔ میرے ساتھیوں نے نہ تو بھوک پیاس کے سامنے ہار مانی اور نہ ہی جیل کی سلاخوں سے خوفزدہ ہوئے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ میں تو رسولِؐ خدا سے یہ کہنے گیا تھا کہ عوام سچ کی تلاش میں ہیں جہاں تک اسحاق ڈار کا یہ کہنا ہے کہ کل چونکہ وہ سرکاری طور پر حالتِ سوگ میں تھے‘ اس لیے میری پریس کانفرنس کا جواب آج دے رہے ہیں تو یہ ہمارے لیے بہت ہی حیران کن ہے کہ ان کی حکومت کا قانون اور اطلاعات و نشریات کا مرکزی وزیر کیا ''سرکاری‘‘ نہیں ہوتا؟ عمران خان نے کہا کہ ان کی مدینہ شریف میں کی جانے والی پریس کانفرنس کا تو ان کے وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب نے کل ہی جواب دے دیا تھا
جس میں انہوں نے مجھ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ میں خانۂ خدا میں بیٹھ کر بھی جھوٹ بولنے سے باز نہ آیا؟ کیا سینئر وزیر اسحاق ڈار صاحب بتا سکتے ہیں کہ کیا مرکزی وزیر اطلاعات و قانون و انصاف سرکاری سوگ میں شامل نہیں ہو ا کرتا؟ کیونکہ ڈار صاحب بھی تو مرکزی وزیر ہی ہیں۔نہ جانے اب ان دونوں میں سے سچ کون بول رہا ہے؟
رہ گئی خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں بیٹھ کر جھوٹ بولنے کی بات تو کہا جاتا ہے کہ 2001ء میں پاکستان کی دو اہم ترین شخصیات اپنے پورے خاندان سمیت راولپنڈی چک لالہ سے سعودی عرب کے شہر جدہ میں اتریں اور یہ کام اس رازداری سے کیا گیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ کچھ لوگوں کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ ایک خصوصی جہاز اسلام آباد سے کہیں دور جانے والا ہے لیکن سوائے چند ایک کے بہت کم لوگ یہ جان سکے کہ اس جہاز کی منزل سعودی عرب ہے جہاں مکہ مکرمہ ہے اور اس مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہے جس کا طواف رہتی دنیا تک جا ری رہے گا اور اسی سعودی عرب میں مدینہ منورہ ہے‘ جہاں ہادی بر حق رحمت اللعالمین نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیﷺ کا روضہ مبارک ہے اور اسی سعودی عرب میں وہ مقام بھی ہے جسے غار حرا کہتے ہیں‘ جس میں حضرت محمد مصطفےﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور اسی سعودی عرب میں وہ مقام نبوی بھی ہے جہاں کھڑے ہو کر رسولِؐ خدا نے آخری خطبہ دیتے ہوئے فرمایاتھا کہ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جھوٹ مت بو لو اور اسی سعودی عرب میں بیٹھ کر پاکستان سے آ ئے ہوئے کچھ لوگ ایک بار نہیں ہزار بار کہتے رہے کہ ہم نے حکومت پاکستان سے سعودی عرب میں دس سال تک رہنے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا اور اسی سعودی عرب میں مدینہ منورہ میں روضۂ رسولؐ کے رحمت اور ٹھنڈک دینے والے سبز گنبد کے سائے میں جہاں ایک مسلمان کی زبان سے اﷲ کی وحدانیت اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیم کے سوا کوئی اور بات زبان سے نہیں نکلتی‘ اسی جگہ پر پاکستان سے عمرہ کی سعادت کیلئے آئے ہوئے ایک نہیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے پوچھنے پر ایک بار نہیں ہزار بار نہیں بلکہ لاکھوں بار کہا گیا ''ہم نے حکومت پاکستان سے کسی بھی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔۔۔۔۔۔‘‘ اور پھر ایک دن سب چکرا کر رہ گئے جب وہی کہہ اٹھے اور جسے ساری دنیا نے دیکھا اور سنا کہ ہاں ہم نے حکومت پاکستان سے معاہدہ کیا تو ہے لیکن یہ معاہدہ دس سال کا نہیں بلکہ پانچ سال کا ہے۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ سچ خود چل کر سب کے سامنے آ کھڑا ہوا اور آج کے ولی عہد سعودی عرب شہزادہ مقرن نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اصل معاہدے کو ہوا میں لہراتے ہوئے دنیا بھر کے میڈیا کو بتایا کہ پانچ سال نہیں بلکہ نواز شریف اور شہباز شریف نے جنرل مشرف سے دس سال تک ملک سے باہر رہنے کا معاہدہ کیا تھا۔
اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو اسے سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد کی وہ پریس کانفرنس بھی تو یاد ہو گی جب انہوں نے کہا تھا'' میاں محمدنواز شریف خود کئی مرتبہ ہمارے ساتھ کئے جانے والوں معاہدوں سے پھر چکے ہیں‘‘ انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ میاں صاحب نے ہمارے ساتھ مل کر پریس کانفرنس میںپوری قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میں فروری2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کروں گا اور ان میں کبھی حصہ نہیں لوں گا اور محمود خان اچکزئی جو اس وقت کوئٹہ کی میئر شپ، بلوچستان کی گورنری، تین وزارتوں اور دو اعلیٰ سرکاری پوسٹوں سے فیض یاب ہونے کے بعد اس فوائد پہنچانے والی جمہوریت کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں اور فوج اور عمران خان پر گرج برس رہے ہیں‘ وہ بھی قاضی صاحب مرحوم ومغفور کی اس پریس کانفرنس میں موجود تھے۔۔۔۔کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ کچھ کہنے سے پہلے؟