فیصل آباد کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کے مقدمہ میں ملوث مسلم لیگ نواز کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی اور ان کے مسلح گن مینوں کے ،تھانے میں موجود تمام پولیس اہلکاروں کی دھنائی کرتے ہوئے کسی کے دانت توڑ نے تو کسی کا سر پھوڑ نے کے ،مقدمے کی کوئی چھ ماہ بعد جب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں با قاعدہ سماعت شروع ہوئی تو فرد جرم عائد ہونے کے بعد پولیس کے ان تمام اہلکاروں‘ جنہیں قانون کا نفاذ کرنے والے رکن اسمبلی نے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا تھا‘ عدالت کے رو برو دست بستہ کھڑے ہو کر متعلقہ جج صاحب کو بیان دیتے ہوئے ملزمان کو پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔ کسی نے کہا کہ پولیس اسٹیشن میں سرجھکائے ہوئے بیٹھا سرکاری کام میں مصروف تھا کہ رائفل کے بٹ سے لگنے والی بھاری ضرب سے اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا اور یہ خون آنکھوں میں بھر جانے سے اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھاکہ کون لوگ ہیں جو اُن سب کو مار رہے ہیں۔ پہلا خیال یہی ذہن میں آیا کہ دہشت گردوں نے تھانے پر حملہ کر دیا ہے اور جناب والا آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا اور اگر ان کا کوئی چہرہ سامنے آ بھی جائے تو جناب والا'' دہشت گرد تو پھر دہشت گرد ہیں‘‘ جن کے بارے میں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ ہیں وہ پورس کے ہاتھی‘ جو جمہوریت کی برکت سے اپنے ہی قانون کو روندنا شروع ہو گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ پولیس اسٹیشن کے سابق ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ جب اُسے زور دار تھپڑ پڑا تو اس سے اس کا سر گھوم گیا اور یہ سر کافی دیر تک گھومتا رہا‘ جس سے اُسے ایک کے دو نہیں بلکہ
چار چار نظر آنا شروع ہو گئے‘ جو اُن سب پولیس والوں کو رائفلوں اور مائوزروں کے بٹوں سے مار رہے تھے۔ اس کے بیان کے مطابق: میڈیا کے لوگوں نے جب پوچھا تھا تو مجھے بس اتنا یاد آیا کہ ایک بڑی سی گاڑی میں سے ایک شخص اترا‘ جس کے قیمتی کپڑوں سے پتہ چلتا تھا کہ کوئی بڑا آدمی ہے۔ اس بڑے آدمی نے گاڑی سے اترتے ہی پہلے تو مجھے گندی گندی گالیاں دیں اور جب تھانے میں موجود اہلکاروں نے اُسے منع کیا‘ تو ان کے ساتھ آئے ہوئے آدمیوں نے ہم سب پر دھاوا بول دیا۔ اس پولیس افسر اور اس کے ساتھی اہل کاروں سے جب میڈیا کے کچھ لوگوں نے اپنی پہلی گواہیوں سے منحرف ہونے کا سبب پوچھا‘ تو ان کی جانب سے دیا گیا جواب اس قدر خوبصورت تھا کہ سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ مذکورہ تھانے کی پولیس ازخود منحرف نہیں ہوئی بلکہ لگتا ہے کہ اس صوبے کے حکمرانوں نے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔
ابھی کھرڑیانوالہ میں حکمران جماعت کی جانب سے کیا جانے والا کھڑاک سنائی ہی دے رہا تھا کہ چند دن پہلے گوجرانوالہ کے ایک مضافاتی گائوں میں ایک شادی کی تقریب میں شریک بڑے بڑے لوگوں نے جدید ترین اسلحہ سے بھر پور فائرنگ کی اور اس کی ویڈیو وہ لوگ اس بے خوفی اور شان و شوکت سے بنوا رہے تھے‘ جیسے کسی جنگل میں شکار کیلئے نکلے ہوں یا کسی ''جٹ دے کھڑاک‘‘ نام کی فلم کی شوٹنگ میں حصہ لے رہے ہوں۔ جب اس شوٹنگ‘ جسے میڈیا کے کچھ نا سمجھ لوگ فائرنگ کانام دیتے رہے‘ کی براہ راست ویڈیو پاکستان بھر کے ٹیلیویژن چینلز نے دکھانا شروع کر دی تو ملک کا رائج الوقت قانون فوری طور پر حرکت میں آ گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح لاہور ماڈل ٹائون میں ایک سو افراد کو براہ راست گولیاں ماری گئیں‘ جس سے چودہ انسان‘ جن میں اس قوم کی دو بیٹیاں بھی شامل تھیں‘ شہید کر دیے گئے تواس قتل عام پر قانون حرکت میں آیا تھا کہ ابھی تک کہیںرکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اب تک کی صورت حال دیکھنے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ مسلسل حرکت میں رہنے کی وجہ سے یہ بے چارہ تھک کر کہیں ادھر ادھر گر ہی نہ جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے فیصل آباد کے تھانے پر حملہ کے وقت ٹیلی ویژن سکرینوں کے شور مچانے پر حرکت میں آئے ہوئے قانون کی زبان اس وقت گنگ ہو کر رہ گئی جب معزز عدالت کے سامنے سچ بولنے کی قسم کھانے والوں کیلئے قانون کی حرمت کا عہد کرنے والوں کا '' وقت شہا دت‘‘ آن پہنچا تھا۔
گوجرانوالہ شادی فائرنگ کے مقدمے میں ملوث ملزمان کو جب میڈیا کے بار بار شور مچانے اور اندھا دھند فائرنگ کی ویڈیو بار بار دکھانے پر گرفتار کرنا پڑ گیا تو انہوں نے تیسرے دن یہ کہتے ہوئے تھانے میں شور مچانا شروع کر دیا کہ اصل ملزم کو تو پکڑا نہیں جا رہا‘ جس کا اسلحہ فائرنگ کیلئے استعمال ہوا اور ہم لوگ جو صرف آسمان پر اڑنے والے'' چڑوں‘‘ کو نشانہ بنارہے تھے گرفتار کرکے لاک اپ میں بند کر دیے گئے ہیں۔ اس پر جب گوجرانوالہ پولیس حرکت میں آنے پر مجبور ہوئی تو بڑے ملزم کے نام پر بے چارے تماں بٹ کو گرفتار کرلیا گیا اور ساتھ ہی کسی نئے نئے بھرتی ہونے والے پولیس اہل کار نے گستاخی کرتے ہوئے کوئی آٹھ دس خوفناک قسم کی جدید ترین آٹو میٹک گنیں بھی برآمد کر لیں۔ جب جناب تماں بٹ‘ جو کہ گوجرانوالہ مسلم لیگ کے اہم عہدیدار بھی ہیں‘ کی گرفتاری عمل میں آ گئی تو میڈیا کے پوچھنے پر کہ کیا ان کا مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا‘ اعلیٰ افسران نے برہم ہو کریہ کہنا شروع کر دیا کہ ''ابھی تو مقدمہ کی تفتیش شروع ہی ہوئی ہے‘‘ لیکن جیسے ہی تفتیش شروع ہوئی تو اس مقدمے کے ملزمان کی ضمانتیں بھی منظور ہوگئیں جس پراس مقدمے کے ایک ملزم نے عدالت کے باہر تاریخی اور لاجواب جملہ بولا‘ اس نے کہا: ''مجھے عدالتی نظام پر پورا پورا یقین تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کی ایک سیکنڈ میں ضمانت منظور ہو گئی‘‘ (روزنامہ دنیا4 فروری)۔ ملزمان کا کہنا تھا کہ چھوٹے سے واقعے کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے ان کی اور ان کے خاندان کی کردار کشی کی گئی۔
اطلاع یہ ہے کہ جس طرح منہاج القرآن ماڈل ٹائون کے باہر ہونے والے قتل عام کی ملک بھر کے ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی ویڈیوز کے بارے میں پولیس کی جانب سے عدالت میں کہا گیا کہ اس کی ابھی تک با قاعدہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ اصلی ہے یا نقلی ۔۔۔۔اسی طرح جیسے ہی'' گوجرانوالہ فائرنگ کے اس مقدمے کی تفتیش ‘‘شروع ہوئی تو پولیس کو ملنے والے اہم شواہد اور گائوں کے ایک سو سے بھی زائد لوگوں اور باراتیوں کی جانب سے ریکارڈ کرائی جانے والی شہادتوں کی بناپر گوجرانوالہ پولیس کی جانب سے اس خدشہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ انہیں شک ہے کہ فائرنگ کرتے ہوئے جو ویڈیو ٹیلیویژن چینلز پر دکھائی گئی تھی وہ کہیں پرانی نہ ہو؟!!