فرانسیسی حکومت اور میڈیا نے ماضی کے اس حکم کو دبانے اور چھپانے کی بہت کوشش کی ہے کہ بدنام زمانہ تمسخر اڑانے اور اہانت آمیزکارٹون بنانے والے فرانسیسی ہفت روزہ چارلی ہیبڈوکا پرانا نام ''HAI KIRI‘‘ ہے جس نے سابق فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال کی موت پر ان کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کی تھی۔ اس حرکت کا فرانسیسی عوام نے سخت برا منایا تھا؛چنانچہ عوام کے شدیداحتجاج اورناراضگی کو دیکھتے ہوئے فرانسیسی حکومت کے حکم پر اس ہفت روزے کو بندکر دیا گیا تھا۔ دس سال قبل اسی میگزین (HAI KIRI) نے چارلس ہی کانام استعمال کرتے ہوئے اسے ''چارلی ہیبڈو‘‘ کے نام سے دوبارہ شائع کرنا شروع کر دیا۔
حال ہی میں امریکی صدر اوباما نے فرانس اور پشاورکا ایک بار پھر حوالہ دیتے ہوئے اسلام کو بطور مذہب دہشت گردی سے بری الذمہ قراردیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بارک اوباماکوان کے با خبر اداروں کی جانب سے بعد میں بتایا گیاکہ فرانس میںکی جانے والی کارروائی کس رد عمل کا نتیجہ ہے۔ دستیاب شواہدکے مطابق اس میں وہی ہاتھ ملوث ہے جس نے آنجہانی امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اسرائیل کو آنکھیں دکھانے کی غلطی کرنے پر چمکتے سورج کی روشنی میں دنیا سے اٹھوا دیا تھا۔ امریکی آج تک اپنے صدرکے قاتل کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بھی اپنی مرضی کرنے کی کوشش کی تو واٹرگیٹ کے ایسے بند توڑے گئے کہ وہ اس میں بہہ کر غوطے کھانے لگے۔ اس کے بعد صدرکلنٹن نے فلسطین کی طرف اچھی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو اسے مونیکا لیونسکی سکینڈل میں اس طرح ذلیل و خوارکیاگیا کہ وہ سب سے آنکھیں چرانے پر مجبور ہوگئے۔ حال ہی میں جب فرانس نے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو7 جنوری کو پیرس میں خوفناک طریقے سے مبینہ طور پر ''داعش‘‘ کے جنگجوئوں کے ہاتھوں چارلی ہیبڈو پر خونریز حملہ کرا دیا گیا جس پر پوری اسلامی دنیا ابھی تک اپنی صفائیاں پیش کررہی ہے۔ یورپی دنیاکے وہ سب ممالک جو اپنے طور پر فرانس کی راہ پر چلتے ہوئے فلسطینیوںکو تسلی دینے کی تیاریاں کر رہے تھے، سہم گئے ہیں، انہیں خوف لاحق ہے کہ جیسے ہی وہ فلسطین کے لیے اظہار ہمدردی کا ارادہ کریں گے۔ ان کے اپنے عوام ان کے خلاف سڑکوں پر آ جائیں گے۔ اسرائیل اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان سب کو مسلم دنیا کی دہشت گردی سے خوف زدہ کرتے ہوئے مجبورکر رہا ہے کہ وہ ان مسلمانوںکو اپنے ملکوں سے نکال باہرکریں۔
میں نے چارلی ہیبڈوکے دفتر میں ہونے والی خونریزکارروائی میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے جن خدشات کی بات کی ہے، ہو سکتا ہے کچھ آزاد خیال لوگوںکو یہ پسند نہ آئے، ان سب کو یہ حقیقت جاننے کے لیے میں یہ ویب سائٹ وزٹ کرنے کی دعوت دیتاہوں :
brothernathanaelchannel.com
امید ہے کہ اسے غور سے دیکھنے اور سننے کے بعد ذہنوں میں کسی قسم کا شک نہیں رہ جائے گا کہ چارلی ہیبڈو پر حملہ اسرائیل کے خفیہ ادارے موسادکا ہی کیا دھرا ہے۔
7 جنوری 2015 ء کو سیاہ لباس پہنے ہوئے دو مسلح نقاب پوش چارلی ہیبڈوکے دفتر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے دفترکی عمارت کے ایک دربان اور نیشنل پولیس افسر سمیت 12صحافیوںکو قتل کر دیا۔ یہ افسوسناک واقعہ ہونے کے بعد 9 جنوری کو دنیا بھرکے میڈیا نے براہ راست ایک آپریشن دکھاتے ہوئے رپورٹ کیا کہ دو سگے مسلمان بھائیوں سعید اور شریف کوشی کو مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا ہے جن کے بارے میں اطلاع تھی کہ انہوں نے چارلی ہیبڈو پر حملہ کیا تھا اور جواس وقت پیرس میں Dammartin-en-Goële کی مارکیٹ کے ساتھ سائنیج کمپنی میںکچھ لوگوںکو اسلحے کے زور پر یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
7 جنوری کے افسوس ناک واقعے نے فرانس میں ہر آنکھ کو نم کر دیا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور احتجاج کی ایک لہر پیدا ہوگئی۔ اس نفرت اور حقارت کا رخ حسب معمول مسلم دنیا کی طرف موڑنے سے مسلم امہ کو زبردست دھچکا لگا اور وہ اپنی اپنی کمیونٹی میں دوسری قوموںکے لوگوں کے سامنے اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہوگئے۔11جنوری کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اس متنازع میگیزین اور مقتولین سے اظہار یکجہتی کے لیے بین الا قوامی ریلی کا انعقادکیا گیا۔ اس کی براہ راست کوریج دکھاتے ہوئے مغربی میڈیا بہت ہی محتاط انداز میں بتاتا رہاکہ اس ریلی میں شریک افرادکی تعداد 16لاکھ سے زیادہ ہے ۔اس ریلی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سمیت چالیس ممالک کے لیڈراور سربراہان مملکت نے شرکت کی۔ یورپی اور مغربی دنیا کے مقتدر لیڈروں کی یہ ریلی جسے فرانس سے یکجہتی کا نام دیاگیا، دراصل مسلم امہ کی جانب عیسائی دنیا کے عوام کے غضبناک غصے کو اجاگر کر نے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔ فرانسیسی حکومت اور مغربی میڈیا بڑے فخر سے کہتا ہے کہ ہمارے ہاں زبان و بیان کی مکمل آزادی ہے۔ ان کی بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن کیا فرانس سمیت یہ سب یورپی ممالک بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ کے ممالک میں یہودیوں کی دکھتی رگ '' ہولو کاسٹ ‘‘کا نام لینا، اس کا ذکرکرنا،اس کے بارے میں کچھ لکھنا قابل تعزیر جرم کیوں ہے؟ اگر چارلی ہیبڈو والے اتنے ہی آزاد میڈیا کے حامی ہیں تو انہوں نے ہولو کاسٹ کے بارے میں کوئی خاکہ کیوں نہیں بنایا؟
پاکستان میںچارلی ہیبڈوکی اس مکروہ حرکت کے خلاٖف رسول خداﷺ سے محبت اور عقیدت کے لیے ریلیاں نکالی تو جا رہی ہیں لیکن اس میں توڑ پھوڑ اوراملاک کو نقصان پہنچانے کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ریلیوں کے ساتھ ساتھ ایرانی حکومت کے جاندار ردعمل کی پیروی کرے جس کے''ہائوس آف کارٹون‘‘ (سرچشمہ فرہنگ کمپلیکس) نے یہودیوںکے ہولوکاسٹ کے نام پر دوسرا انٹر نیشنل کارٹون مقابلہ منعقد کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ادارے کے ڈائرکٹر شجاع طباطبائی نے اس میں حصہ لینے والے کارٹونسٹوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپریل کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے ہولوکاسٹ پر اپنے بنائے ہوئے کارٹون ایرانی حکومت کو بھیج دیں تاکہ انہیں مقابلے میں شامل کیا جا سکے۔ دنیا بھر سے اس میں حصہ لینے والوں میں اول، دوم اور سوم آنے والے کارٹونسٹ کو ایرانی حکومت کی جانب سے ایک خصوصی تقریب میںؔ بالترتیب بارہ ہزار، آٹھ ہزار اور پانچ ہزار امریکی ڈالر انعام دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اس مقابلے کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلی حکومت نے اپنے میڈیا کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ بارک اوباما نے بھی ایران کو دھمکی دی ہے کہ وہ مارچ تک اپنے نیوکلیئر پروگرام پر پابندیاں قبول کر لے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔۔۔۔!