"MABC" (space) message & send to 7575

دہلی میں سونامی

بھارت کے دارالحکومت دہلی کے ریاستی انتخابات میں بھارت کی دو مضبوط ترین سیا سی جماعتیںبھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس عام آدمی پارٹی کے سونامی میں اس طرح بہہ گئیں کہ نریندرمودی کی جماعت تو آٹھ دس غوطے کھانے کے بعد انتہائی کسلمندی کی حالت میں جان بچانے میں کامیاب تو ہو گئی ہے لیکن کانگریس کا ابھی تک کوئی سر پیر نہیں مل رہا اور وہ دو چار غوطہ خور جو بھارتیہ جنتا پارٹی کو سونامی کے بھنورسے بچا کر لے آئے ہیں،وہ ابھی تک کانگریس کی تلاش میں ہیں ۔اب تک کی رپورٹ کے مطابق عام آدمی پارٹی نے دہلی کے ریا ستی انتخابات کی70 نشستوں میں سے67پر حتمی کامیابی حاصل کر لی ہے اور اس کے مقابلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی بڑی ہی مشکل سے صرف تین نشستوں پر واضح برتری حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر سکی ہے ۔چوتھی نشست پر عام آدمی پارٹی کے ساتھ اس حلقے میں بھر پور مقابلہ جاری ہے لیکن اب تک کے نتائج کے بعد دہلی کے ودہان سبھا کی 67 نشستوں سے کامیابی حا صل کر نے کا واضح مطلب ہے کہ اروند کجریوال کی جماعت نے ریاستی انتخابات میں کلین سویپ کر لیا ہے اور بھارت کی دونوں بڑی جماعتوں جن میں ایک طرف نہرو کی وراثت میں پلنے والی بھارت کی خالق سیا سی جماعت کانگریس اور دوسری اسی کے پیٹ سے جنم لینے والی اس وقت بھارت کی سب سے بڑی سیا سی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا، عام آدمی کی رائے نے دہلی سے مکمل خاتمہ کرتے ہوئے دہلی کی نمائندگی سے مکمل طور پر محروم کر دیا ہے۔ دہلی کی ودہان سبھا کے ان انتخابات کی سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ اب تک کے ہونے والے تمام انتخابات کے مقابلے میں ووٹروں کا ٹرن آئوٹ 67.1 فیصد ہے اور یہ اب تک ہونے والے تمام انتخابات سے زیا دہ ہے۔ کانگریس کی جو حالت ان انتخابات میں ہوئی ہے ،وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ ان انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے صرف ایک حلقے کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ جہاں سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار سوراب بھردواج 38885 ووٹ حاصل کر تے ہوئے کامیاب ہورہے ہیں اور ان کے مقابلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے آر کے گلیاس25933 اور کانگریس کی امیدوار شرمیلا مکرجی صرف3445 ووٹ حاصل کر سکیں ہیں۔۔۔اور سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ نئی دہلی سے بھارتی جنتا پارٹی کی وزیر اعلیٰ کیلئے نامزد مضبوط ترین امیدوار کرن بیدی نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کجریوال کو مبارکباد کا پیغام بھیج دیا ہے۔ بھارت کے انتخابات میں اور اس کی سیا سی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی ریاست کے انتخابات میں ایک عام سے شخص نے بھونچال پیدا کر کے رکھ دیا ہے اور جسے بھارت میں سونامی کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ کجریوال جو بھارتی حکومت کے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میںجوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، ایک دن اچانک اپنی منافع بخش نوکری سے استعفیٰ دے کر رفاہی کاموں اور تبدیلی کے نام سے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں اور اپنی ان سماجی خدمات کے حوالے سے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا جاتا ہے۔بھارت کے سونامی کے نام سے پکارے جانے والے اروند کجریوال 16 اگست1968ء کو بھارت کے صوبے ہریانہ کے ضلع بھوانی کے ایک چھوٹے سے گائوں سوانی میں عام سے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد وہ ایک انجینئر بنے اور انہوں نے سب سے پہلے بھارت کی سب سے مشہورٹاٹا سٹیل سے 1989ء میں اپنی ملازمت کا آغازکیا لیکن1992 ء میں وہاں سے استعفیٰ دیتے ہوئے انڈین سول سروس کے امتحان میں شامل ہوئے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انڈین ریونیو سروس میں شامل ہوگئے جہاں انہیں انکم ٹیکس کا محکمہ دیا گیا ۔ اس محکمے میں ایک طرف مال بنانے کے بے شمار مواقع تھے تو دوسری طرف کجریوال کا ضمیر تھا جو کرپشن کے خلاف ڈھال بن کر کھڑا ہو گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طاقتور مافیا کے سامنے اسے بے بس کر دیا گیا اور
پھر وہ اس ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد انا ہزارے کی کانگریس کے خلاف ملک بھر میں چلائی جانے والی کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف شروع کی جانے والی بھوک ہڑتالی تحریک میں ہراول دستے کے طور پر شامل ہو گئے۔ پھر انہوں نے2012 ء میں '' عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے اپنی جماعت قائم کی اور ملک کی سیا ست میں باقاعدہ داخل ہونے کا اعلان کیا۔ ابتدا میں جب انہوں نے اپنی جماعت کی میٹنگز اور جلسے شروع کیے تو یہ بھاری رش لینے لگے جس پر پرانے جغادری سیا ستدانوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا لیکن ایک سال بعد ہی 2013ء میں ہونے والے انتخابات نے سب کی راتوں کی نیند چھین لی۔ انا ہزارے کی تحریک سے متا ثر ہو کر اپنی سیاسی جماعت بنانے والے دہلی کے ان انتخابات میںکجریوال کی بھر پور کامیابی کی خبر ملنے پر انا ہزارے نے سب سے پہلے کجریوال کو مبارکبادکا پیغام بھیجا ہے اور ساتھ ہی تاکید کی ہے کہ بھیس بدل بدل کر آنے والے مگر مچھوں سے ہوشیار رہے۔ 
اروندکجریوال 28 دسمبر2013 ء کو دہلی ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے لیکن صرف49 دن کی وزارت اعلیٰ کے بعد14 فروری2014 ء کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے کیونکہ اس وقت انہیں اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں تھی اور وہ کانگریس اور کچھ آزاد اراکین سے اتحاد کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔لیکن وہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف جو بھی سخت سے سخت قانون بنانا چاہتے ، کانگریس اور دوسری چھوٹی جماعتوں کے اتحادی اراکین آڑے آ جاتے ۔ جب کجریوال نے دیکھا کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تو انہوں نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا ان49 دنوں میں جو سب سے بڑا کارنامہ تھا اور جس کی راہ میں بھارتی جنتا پارٹی اور کانگریس نے مل کر مخالفت کی وہ کم آمدنی والوں کو پانی کا مفت کوٹا اور ان کے بجلی کے نصف بل معاف کرنے کے احکامات تھے۔یہ دونوں جماعتیں اگر ایسا کرنے دیتیں تو پھر بھارت کے22 دیگر صوبوں میں بھی یہی کچھ کرنا پڑتا۔نئی دہلی کی اس سونامی میں بہہ جانے والی بھارت کی دو مضبوط ترین اور قدیم سیا سی جماعتیں جس بری طرح عام آدمی پارٹی کی سونامی کے سامنے بہہ گئی ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ کجریوال نے اپنے ووٹروں سے صرف وعدے ہی نہیں کئے بلکہ ان کے دلوں کو اپنے عمل اور باتوں سے متوجہ کیا ہے ۔اس میں ہمارے ملک کے سیا ستدانوں کیلئے بھی سبق موجود ہے کہ وہ نعروں اور وعدوں کی بجائے اپنی باتوں اور تقریروں میں اس قسم کی صداقت پیدا کریں کہ عوام خوش کن نعروں کی بجائے حقائق کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کے عادی ہو جائیں اور جس دن ہمارے ملک کے ووٹروں نے جذباتیت اور اندھی وابستگیوں کی بجائے حقائق کو اپنا نا شروع کیا تو اس سے ہمارے ملکی مسائل میں کمی اور وسائل میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں