"MABC" (space) message & send to 7575

آپ بھی نشانے پر ہیں

عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ دو روزہ دورہ پر پاکستان پہنچ چکے ہیں ۔ان کی آمد سے ایک روز قبل 13 ارکان پر مشتمل چینی ماہرین کا اعلیٰ سطحی وفد بھی دو روزہ دورے پر گوادر پہنچا ہوا ہے ۔ اپنی آمد کے فوری بعد اس وفد نے گوادر پورٹ، گوادر فری زون، ڈسٹرکٹ ہسپتال گوادر اور جی ڈی اے سکول کا تفصیلی دورہ کیا۔اپنی آمد کے بعد چینی وفد اورگوادر چیمبر آف کامرس کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں گوادر سمیت بلوچستان کی ترقی کیلئے چین کی جانب سے بھر پور سرمایہ کاری کا یقین دلایا گیا ۔ایک طرف اگر یہ اعلیٰ سطح کا چینی وفد گوادر پورٹ پر ترقیاتی کاموں کی تیز رفتاری کا جائزہ لے رہا ہے تو اس سے اگلے دن چینی وزیر خارجہ بھی اپنے دو روزہ دورہ پر اسلام آباد پہنچے ہیں اور ان کا یہ دورہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ چین کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔چینی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے ایک ہفتہ قبل چین کے نائب وزیر برائے قومی ترقی اور اصلاح کمیشن کی جانب سے بیجنگ میں کی جانے والی پریس کانفرنس نے عالمی میڈیا اور سفارتی حلقوں کو حیران کر دیا ہے جس میں چین نے فخریہ طور پر اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ'' چین نے پاکستان کو چھ نیوکلیئر ری ایکٹرز قائم کرنے کیلئے معاونت دی ہے‘‘۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ چین کے بعد چینی وزیر خارجہ کابولا جانے والا یہ جملہ ُ''Pakistan is irreplaceable friend'' سمجھنے والوں کیلئے بہت کچھ کہہ گیا ہے۔ چین پاکستان کی عسکری قیادت پر اس لیے بھی اعتماد کرتے ہوئے دل کھول کر تعاون کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پاکستان کی سول قیادت کی طرح عسکری قیا دت چینی مدد کی آڑ میں کمیشن اور خاندان کی لوٹ سیل نہیں لگاتی۔
دنیا کے کسی بھی حصے میں بسنے والے باخبر انسان سے اگر یہ پوچھا جائے کہ عوامی جمہوریہ چین کوکس ملک سے سب سے زیا دہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو جواب میں امریکہ اور بھارت کے علا وہ دوسرا کوئی نام نہیں ہو گا!! اور چین بھی یقینا اس سے بے خبر نہیں ۔ بھارت بحیرۂ ہند کے علا وہ فضائی اور بری فوج کیلئے جس قسم کے دور تک مار کرنے والے ایٹمی اور بلاسٹک میزائل دھڑا دھڑ تیار کر رہا ہے ،ان کے استعمال کے بارے میں اگر پوچھا جائے کہ ان کا نشانہ کون کون ہو سکتا ہے تو اس کاجواب سوائے پاکستان اور چین کے کوئی اورنہیں ۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا پاکستان اورچین کو کبھی ایک دوسرے کی جانب سے حملے کا خطرہ ہو سکتا ہے تو جواب ناں میں ملے گا۔ کیونکہ دونوں کی سلامتی ایک دوسرے سے اس طرح مشروط ہے کہ پاکستان اور چین بھارت کی راہ میں حائل نہ ہوں تو سری لنکا، بھوٹان، نیپال، برما ، بنگلہ دیش اور مالدیپ جیسے ممالک بھارتی کالونیاں بن کر رہ جائیں اور بغیر کسی شک کے کہا جا سکتا ہے کہ اس سے آگے نکلتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور خلیج کی دوسری تمام ریاستوں تک بھارت کی مداخلت نے عالمی امن کو تباہی کی جانب دھکیل دینا تھا۔
چین امریکہ کے تجارتی تعلقات سامنے رکھیں تو نئی دہلی کی نسبت بیجنگ پر واشنگٹن کا انحصار سب سے زیا دہ ہے۔اس کا اندازہ کرنے کیلئے ریکارڈ سامنے رکھیں تو بھارت کی امریکہ سے تجارت اگر100 بلین ڈالر اور چین سے70 بلین ڈالر سالانہ ہے تو چین اور امریکہ کی مشترکہ تجارت560 بلین ڈالر سے بھی زیا دہ ہو چکی ہے بلکہ اب تو نوبت یہ ہو چکی ہے کہ جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا جیسے امریکہ کے تابعدار قسم کے ممالک کی بھی چین سے گاڑھی چھن رہی ہے۔ایشیائی ممالک پر مشتمل خطے کی صورت حال کو سامنے رکھیں تو افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا پہلا غیر ملکی دورہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں چین کا کیا۔نئے افغان صدر اس چار روزہ دورہ چین سے تین سال میں245 ملین ڈالر کی رقم بطور امداد لے کر لوٹے۔ ساتھ ہی افغانستان کے تین ہزار اہل کاروں کو چین میں تربیت دینے کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے۔ چین کیلئے پاکستان اور افغانستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت سے انکار نہیں کیونکہ چین کو اگر ایک طرف اپنے انڈین اوشین بیسن کیلئے پاکستان کی ضرورت ہے تو دوسری جانب سینٹرل ایشیا سے اپنی تجارت کیلئے افغانستان کی دوستی بھی اہم ترین ہے لیکن امریکہ کی یہی کوشش ہے کہ چین کیلئے سینٹرل ایشیا تک آزادانہ پہنچنے کے راستے ناممکن بنا دیئے جائیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو سینٹرل ایشیا کی توانائی کے ذرائع چین کیلئے آسان ترین ہو جائیں گے۔ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ چین اور چینی وزیر خارجہ کے متوقع دورہ پاکستان کی خبر نے بھارت کی نیندیں اڑا کررکھ دی ہیں اور وہ نشہ جو امریکی صدر اوباما کے دورہ بھارت میں آپس میں کی جانے والی ''خوش گپیوں اور جپھیوں‘‘ سے دو آتشہ ہو رہا تھا،یک لخت اتر گیا ہے اور فوراً ہی بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج اکتیس جنوری کو اپنے پہلے دورہ کیلئے چین جا پہنچیں۔ مقصد تو ان کا بیجنگ میں 2 فروری سے شروع ہونے والی 13 ویں روس، چین اوربھارت کے درمیان ہونے والی سہ فریقی کانفرنس میں شرکت کرنا تھا ۔اس سہ فریقی کانفرنس میں روس اور چین کے شرکاء نے امریکی صدر اوباما کے بھارت کے ساتھ کیے جانے والے کئی معاہدوں ،خاص طور پر نیوکلیئر معاہدوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا جوسشما سوراج کیلئے خفت کا باعث بنتا رہا۔ چین میں اکتیس جنوری کو اپنی آمد سے اب تک سشما سوراج جس طرح چکنی چپڑی باتوں سے چینی قائدین کو دیرپا دوستی کا یقین دلا رہی ہیں اس میں یہی یقین دلایا جا رہا ہے کہ بھارت امریکہ کا دوست ضرور ہے لیکن نریندر مودی حکومت کی خواہش ہے کہ چین سے ان کی دوستی اس سے بھی زیا دہ ہونی چاہئے لیکن ...یہ سب کچھ کہتے ہوئے سشما سوراج بھول کیوں جاتی ہیں کہ امریکہ سے ان کا کیا جانے والا نیوکلیئر معاہدوں کا سب سے بڑا نشانہ کون ہو گا؟۔یقینا پاکستان اور چین ہی اس کا نشانہ ہیں!!اگر کسی کو اس پر شک ہے تو وہ بھارت میںاوباما کے حالیہ بیان کو سامنے رکھ لے جس میں اس نے کہا ہے کہ '' چین کے جنوبی سمندری حصے کو Free air passage'' '' قرار دیا جائے اور اسی سے بھارت اور امریکہ کے مستقبل کے ارادوں اور ان کی ذہنیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے سفارتی اور عسکری حلقوں سے متعلق لوگ تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے بھارت کو اپنے جال میں پھنسا کر بے بس کر دیا ہے اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے نریندر مودی کی شخصیت اور اس کی سوچ کا طویل جائزہ لینے کے بعد اس کے خطے میں عملی کنٹرول اور مہا بھارت کے جنون کو ہوا دیتے ہوئے اس کی سوچوں کو اسی محور میں بند کر دیا ہے ۔ نریندر مودی کے امریکہ کے ساتھ ایشیا پیسیفک میں ریجنل سکیورٹی جیسے کیے جانے والے ان متنازع معاہدوں کا اصل مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ بھارت کو چین کے خلاف میدان میں پہلوان کے طور پر کھڑا کر دیا جائے۔ شاید امریکی قیا دت کا ذہن بھی اب کام کرنے سے معذور ہوتا جا رہا ہے جو یہ اندازہ ہی نہیں کر رہا کہ چین عراق، لیبیا، شام ، مصریا یمن نہیں۔ بھارت کو تباہ کن ہتھیاروں سے چین کے مقابلہ کیلئے مسلح کرنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا کہ مشرق میں آباد دنیا کی آدھی آبادی نریندر مودی کے مہا بھارت کے جنون اور امریکہ کی تماش بینی کی نظر ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی اور ۔۔۔ شاید امریکہ اور مغرب یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ بھی ایشیا کے تین ارب سے زائد انسانوں کو اردنی پائلٹ کی طرح آگ کے شعلوں میں جلتے دیکھ کر داعش کی طرح قہقہے لگا تے رہیں گے ... یہ ان کی بھول ہو گی کیونکہ دوسرے بھی بہت سے نشانوں پر ہیں اور ان کا نشانہ کبھی نہیں چُوکتا اور وہ جس جگہ چاہے لگ سکتا ہے ...!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں