افغانستان میں تبدیلی اور ترقی کے نام سے قائم تنظیم ''YANRC‘‘ کی جانب سے خواجہ بصیر فطری نے کابل کے اخبار ''پجھووک‘‘ میں گزشتہ اتوار کو اپنے ایک مضمون میں اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ پاکستان میں مبینہ طور پر سکیورٹی اداروں کی جانب سے افغان مہاجرین کو جس وسیع پیمانے پر ہراساں کیا جا رہا ہے اس کا سخت نوٹس لیا جائے۔خواجہ بصیر فطری اپنے مضمون میں اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگانے سے قبل اگر اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے چارٹر کا غور سے مطالعہ کریں اور ان حدود وقیود کو سامنے رکھ لیں جن کا کسی بھی ملک میں پناہ لینے والے مہاجرین کو پابند ہونا پڑتا ہے تو شاید یہ جھوٹ لکھتے ہوئے ضمیر کی بے چینی کا احساس ہونے لگے۔ بلکہ مذکورہ افغان تنظیم بھی اس چارٹر کا مطالعہ کر لے تو یہ اس کیلئے اور افغانستان کی نوجوان نسل کیلئے کار آمد ہو گا۔ کسی بھی ملک کی حدود میں قانونی طور پر بھی داخل ہونے والے ہر غیر ملکی کیلئے اس ملک کے قوانین کی پاسداری لازمی ہوتی ہے، چاہے اس شخص کی آمد ایک دن کیلئے ہو ،چند دنوں کے لیے ہو یا لامحدود مدت کیلئے۔ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی جگہ اگر کسی ہوٹل یا کرائے کے گھر میں قیام کیا جائے تو اس کیلئے بھی انتظامیہ کی جانب سے مقرر کئے گئے قواعد و ضوابط کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔چالیس لاکھ سے بھی زائد افغان مہاجرین کی گذشتہ35 سالوں سے پاکستان میں موجو دگی کے دوران سکیورٹی مسائل پیدا ہونے کی وجہ سے وقوع پذیر ہونے والے سوائے چند ایک واقعات کے ،پاکستان میں افغان مہاجرین کو فراخ دلی سے وہ سہولتیں دی گئیں جس کا اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق چارٹر میں کہیں دور دور تک بھی ذکر نہیں ملتا۔
آرمی پبلک سکول پشاور کے جگر پاش سانحے کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز اور عوام میں غصے کا پیدا ہونا فطر ی امرتھا۔ چنانچہ ملکی سلامتی کیلئے پاکستان ہر اس شخص کو قانون کے دائرے میں لانے کی پوری کوشش کر رہا ہے جس کی ہمدردیاں یا تعاون ان دہشت گردوں کو حاصل ہے ۔ا س مقصد کیلئے ملک بھر کے دینی مدرسوں اور دوسرے تعلیمی اداروں سمیت کسی بھی مذہبی تنظیم سے کوئی رعائت نہیں برتی جا رہی۔پھر اگر یہاں چالیس لاکھ سے بھی زائد افغان مہاجرین موجود ہیں تو کارروائی تو صرف چند سو کے قریب لوگوں کے خلاف کی جا رہی ہے اور یہ بھی وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کا ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن اور افغان حکومت کی جانب سے وضع کئے گئے قوانین اور حدود کی بھی خلاف ورزیاں کی ہیں ۔
آرمی پبلک سکول پشاور کے المناک سانحہ کے فوری بعد اپنی ملکی حدود میں امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کی ہر ممکن حد تک حفاظت کیلئے جب پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے ملک دشمن عنا صر کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حتمی کارروائیوں کا فیصلہ کیا تو اس کیلئے دہشت گردی میں ملوث تمام عنا صر کیلئے کسی بھی قسم کی رعائت واجب نہیں تھی اور ان دہشت گرد عنا صر کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے والی تمام مذہبی اور سیا سی تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز بھی بے حد ضروری ہو چکا تھا۔اس سلسلے میں پاکستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے کسی بھی قسم کی تفریق روا نہ رکھنے کا واضح اصول مرتب کیا گیا اور ملک کے تمام سیا سی اور عسکری اداروں نے باہمی رضامندی اور مکمل اتفاق سے نیشنل ایکشن پلان کی باقاعدہ منظوری دی ۔ اسی ایکشن پلان کے تحت ملک کے ہر حصے میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھر پور طاقت سے کام کر رہے ہیں۔ یہ خوفناک سچائی دنیا بھر کے سامنے آ چکی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی ہر دوسری کارروائی میں افغان مہاجرین ملوث رہے ہیں، اس لئے بہت صبر کرنے کے بعدحکومت پاکستان نے ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جس کے پاس اس کی شنا خت کا کوئی بھی واضح ثبوت نہیں ہے۔ اگر شنا خت نہ رکھنے والے کرایہ داروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے تو جان لینا چا ہئے کہ اس میں افغان مہاجرین اور پاکستانیوں کے درمیان بھی کسی قسم کی تفریق نہیں کی جا رہی۔
خواجہ فطری کے علم میں یہ تو ضرور ہو گا کہ ہر افغان مہاجر کوPoR ( پروف آف رجسٹریشن)کارڈ جاری کیا گیا ہے اور انہیں افغانستان،پاکستان اور اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کے درمیان طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کے تحت پندرہ دسمبر2015 ء تک پاکستان میں رہنے کی اجا زت دی جا چکی ہے۔ اب تک بارہ لاکھ سے زائد کارڈ جاری ہو چکے ہیں جبکہ گیارہ لاکھ کے قریب یہ کارڈ جاری ہونے والے ہیں۔ اگر کسی کے پاس یہ کارڈ نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر یہ کارڈ بنوانے سے گریز کر رہا ہے تو پھر اقوام متحدہ کا وہ کون سا قانون ہے جو حکومت پاکستان کو مجبور کرتا ہے کہ اس شخص کو افغان مہاجر تسلیم کرتے ہوئے اس کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی نہ کی جائے؟
افغان نوجوانوں کی اس تنظیم کے عہدیداران سے گزارش ہے کہ اگر ہو سکے تو کسی دن وہ طورخم اور چمن بارڈر پر چند گھنٹوں کیلئے تشریف لا کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ہزاروں کی تعداد میں دونوں اطراف کے لوگ پاکستان اور افغانستان میں آتے جاتے ہیں اور ان میں سے سینکڑوں کی تعداد ایسے افغان مہاجرین کی ہوتی ہے جوافغانستان واپس جانے کے بعد دوبارہ پاکستان میں غائب ہونے کیلئے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔بہت سے اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اگر ان میں سے کسی کے پاسPoR کارڈ نہیں ہے تو پھر اسے کس طرح پاکستان میں رہنے کی اجا زت دی جا سکتی ہے۔
YANRC کے ترجمان سید احسان نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں نہ جانے کس کے کہنے پر پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ''اطلاعات‘‘ کے مطا بق افغان مہاجرین کو سکیورٹی اداروں کی جانب سے گلیوں اور سڑکوں سے گرفتار کیا جا رہا ہے ،ان افغان مہاجرین کو ترغیب دی جاتی ہے کہ افغانستان جا کر وہاں تخریب کاری میں حصہ لیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کو پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے سخت ہراساں کیا جاتا ہے ۔ سید احسان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اب تک تین ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے جو اس عالمی قانون اور معاہدوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے جو دونوں حکومتوں اور بین الاقوامی آرگنائزیشن برائے مہاجرین (IOM) کے درمیان طے پائے ہیں۔
سید احسان کی اس پریس کانفرنس سے قبلIOM نے یہی الزامات لگاتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ آرمی پبلک پشاور پر حملے کے بعد ہزاروں افغانی بھاگ کر افغانستان پہنچ گئے ہیں۔ اس ضمن میںIOM کے مشن چیف برائے افغانستان رچرڈ ڈنزر نے اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوری میں22000 کے قریب ایسے افغانی طورخم بارڈر کراس کرتے ہوئے پاکستان داخل ہو گئے ہیں جن کے پاس کسی بھی قسم کی شنا خت نہیں تھی اور اسی ایک ماہ میں 24000 سے زائد افغان مہاجر ننگر ہار صوبے پر واقع طورخم بارڈر سے افغانستان آئے ہیں۔ یہ تعداد سال2014ء میں واپس آنے والے افغان مہاجرین سے دو گنی ہے۔اگر سید احسان کی بات تسلیم کر لی جائے تو پھر پاکستان کے سکیورٹی ادارے ان شناخت نہ رکھنے والوں کو پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں کی بجائے کیا طورخم اور چمن بارڈر پر ہی گرفتار نہیں کر سکتے تھے ؟
اصل دکھ سید احسان اور خواجہ فطری جیسے لوگوں کو یہ ہے کہ پاکستان بھر سے مسجدوں اور مدرسوں میں گھسے ہوئے سینکڑوں افغان مولویوں کو واپس کیوں بھیجا جا رہا ہے...!!