تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو اس کا حکمران نیرو بنسری بجا رہا تھا۔اس کی اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے آج اسے کوئی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتا۔ وہ تو صدیوں پرانا روم تھا جس کا حکمران نیرو دشمن کے ہاتھوں اس کی تباہی اور بربادی سے بے نیاز بانسری بجاتا رہا لیکن آج کی اکیسویں صدی میں ایک ایسا روم بھی ہے جو جل رہا ہے‘ جس کی تباہی اور ویرانی کے چرچے عام ہیں لیکن اس کے بیس کروڑ کے قریب ''نیرو‘‘ چین سے بانسری بجائے جا رہے ہیں اور انہیں کوئی پروا نہیں کہ کل کو ان کے روم کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے؟
دنیا بھر کے پاکستانیوں نے دیکھا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے دوران میاں نواز شریف سے لے کر زرداری، عمران خان‘فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی خان‘ الطاف حسین‘ چودھری شجاعت ‘ آفتاب شیر پائو‘ محمود اچکزئی اور اختر مینگل تک سب کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ اس طرح بھاگ دوڑ‘ جوڑ توڑ اور ایک دوسرے کی منتیں سماجتیں کی جا رہی تھیں جیسے سب کی جانوں پر بن آئی ہو۔ جب سینیٹ کے انتخابات ہو گئے تو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا پہاڑ سامنے آ کھڑا ہوا۔ جس میں ہر کوئی فرہاد کی پیروی کرتے ہوئے اپنے لیے دودھ کی نہر نکالنے میں جتا ہوا نظر آیا۔ ملک بھر کی سیا سی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ کوئی دن کے اجالے میں تو کوئی رات کے گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے سے جوڑ توڑ کرنے میں مصروف رہا۔ یہ سب کس کے لیے ؟ میرے اور آپ کے لیے نہیں‘ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے لئے‘ اپنے خاندانوں کے لیے‘ اپنے مفاد کے لیے کیونکہ ان سب سیا سی لیڈروں کو فقط اپنا مفاد عزیز ہے ۔ان میں سے کون ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ ملک کا کیا حال ہو رہا ہے‘ مستقبل میں پانی کی کس قدر خوفناک قسم کی کمی کا شکار ہو نے جا رہا ہے ‘لیکن کسی کو احساس نہیں۔ یہ سب نیرو ہیں جو پاکستان کی تباہی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں لیکن اپنے مفاد کی بانسری بجائے جا رہے ہیں۔جس طرح یہ ایک ایک ووٹ کے لیے ایک دوسرے کے پائوں میں گرے جا رہے تھے‘ کاش۔۔۔۔کاش کالاباغ ڈیم بنانے کے لیے ایک دوسرے کے پائوں پڑ جائیں ‘لیکن ایساکبھی نہیں ہو گا۔ ہمارے حصے کے پانی کا ایک ایک قطرہ نچوڑنے والے بھارت کو للکارنے اور اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوئی ہمت نہیں کرے گا۔
کاش‘ عمران خان جو ڈیشل کمیشن کی بجائے یہ اعلان کرتے کہ نواز شریف اگر کالا باغ ڈیم اور سوان ڈیم بنانے کا اعلان کر دیں تو وہ نہ صرف سینیٹ میںانہیںووٹ دیں گے بلکہ اسمبلیوں میں بھی واپس آ جائیں گے ۔وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے 9 مارچ کو لاہور کے ایک فائیو سٹار ہو ٹل میں سائوتھ ایشیا واٹر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگلے پانچ سال بعد پاکستان پانی کے زبردست بحران کا شکار ہو نے جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میںہر دو سال بعد سیلاب آتے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس یہ پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بندو بست ہی نہیں کیونکہ پاکستان کے اب تک کے تمام سیا ستدانوں نے قوم کو ‘ملک کو اور اپنے آپ کو ڈیم فول تو بنائے رکھا لیکن پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی ڈیم بنانے کا سوچنا بھی گوارا نہیں کیا ۔ اب کیا کیا جائے کہ حکمرانوں کا کام شاید تقریریں کرنا ہی رہ گیا ہے اور وہ اس طرح آنے والی تکلیف یا پریشانی کا اظہار کرتے ہیں جیسے ایک لڑکی نے رات گھر والوں کو بتا دیا تھاکہ لگتا
ہے کہ کل ہمارے گھر کا ایک فرد کم ہو جائے گا اور اگلی صبح وہ اپنے کسی دلدار کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔ اس کے گھر والے اور پورا گائوں اس کی عقل اور دور بینی کی داد دے رہا تھا کہ اسے تو ایک رات پہلے ہی پتہ چل گیا تھا کہ اس گھر کا ایک فرد کم ہو رہا ہے۔جناب وزیر محترم‘ آپ حکومت میںہیں ‘بلکہ وزیر اعظم اور ان کی جماعت کی ناک کا بال ہیں ۔ اس بھاگ جانے والی کا انداز تو نہ اپنائیںکہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ملک پانی کے بحران کا شکار ہو جائے گا ‘کسی نے میری بات پر اس وقت کان ہی نہیں دھرا‘ اب مجھے کیوں الزام دیتے ہو؟ میں ہی تو وہ شخص ہوں جس نے آپ سب کو پانچ سال قبل خبردار کر دیا تھا کہ پانی نہ ہونے سے ملک کی معیشت، زراعت ،جنگلی اور آبی حیات سمیت سماجی زندگیوں کو بھی خطرات لا حق ہو جائیں گے۔ اگر کسی کو یقین نہیں آ رہا تو پانچ سال قبل کے میرے اخباری بیانات اور ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے فرمودات ملا حظہ کر سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ملک میں پانی کا کوئی بحران آنے والا ہے توکیا اس کے سد باب کے لیے تدبیر اورجدوجہد دور دیہات کی جھونپڑیوں والے بے کس لوگوں نے کرنی ہے یا اسلام آباد، لاہور، پشاور ، کراچی اور
کوئٹہ میں بیٹھے ہوئے ان لوگوں نے ‘ جن کے پاس طاقت اوروسائل ہیں؟۔ جانب والا‘یہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کام ہے کیونکہ ان کی حکومت ہے۔ لکھنے والے نہ جانے کب سے شور مچا رہے ہیں کہ جاگو جاگو آنکھیں کھولو‘ کچھ کرو ‘ پانی ہمارے بچوں سے چھینا جا رہا ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو گزشتہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اس موضوع کی ہولناکی پر متواتر '' سوان ڈیم ‘واپڈا اور پانی‘‘اور دو اقساط میں ''پانی کی جنگ‘‘ کے عنوان سے مضامین مکمل تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ اس پر واپڈا کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن کی جانب سے دو دفعہ مجھ سے رابطہ کیا گیا ۔میرے خیال میں چیئر مین واپڈا ظفر محمودکو سابق ممبر واٹر عبدا لرحمان میاں ‘ انجینئر انعام اور خور شید انور جیسے لوگوں سے رابطہ کرنا چاہیے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وزارت پانی وبجلی ایک ملک گیر سیمینار کروائے اور اس میں سوان ڈیم کے بارے میں1960 ء کی ورلڈ بینک کی جانب سے تیار کی جانے والی فزیبلٹی کو سامنے رکھا جائے اوراسے قابل عمل بناے کے لیے طوفانی بنیادوں پر کام کا آغاز کر دیا جائے تاکہ خواجہ آصف کی پانچ سال کی ڈیڈ لائن سے قبل ملک کو پیش آنے والی پانی کی کمی پر بھر پور قابو پایا جا سکے۔
مائوزے تنگ نے کہا تھا کہ ایک ہزار میل کا پیدل سفر ناممکن نہیں ہوتا‘ لیکن اس کے لیے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔!