پیپلز پارٹی کے بانی، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ اور شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی والدہ کی 86 ویں سالگرہ خاموشی سے گزر گئی۔ کسی جیالے کو خیال آیا نہ ذوالفقارعلی بھٹو کی قبر کے مجاوروں کو کچھ یاد آیا۔ 23 مارچ 1929ء کو پیدا ہونے والی محترمہ نصرت بھٹوکو یاد کرنے کے لیے ملک میں کوئی تقریب منعقد ہوئی نہ ان کی قبر پر کسی کو پھول چڑھاتے دیکھا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے مجاوروںکی نہیں بلکہ صرف مرتضیٰ بھٹو کی ماں تھیں۔ مادر جمہوریت کے نام سے یاد کی جانے والی بیگم نصرت بھٹو کی یہ کسمپرسی نئی بات نہیں۔ 1994ء کا نیا سال طلوع ہوا تو 5 جنوری کو بیگم نصرت بھٹو نے گڑھی خدا بخش میںاپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کی قبر پر جانے کا ارادہ کیا کیونکہ یہ ان کی سالگرہ کا دن تھا۔ جونہی یہ خبر عام ہوئی، سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے انتظامیہ کو حکم جا ری کر دیاکہ بیگم نصرت بھٹوکو اپنے مرحوم خاوند کی قبر پر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ بیگم نصرت بھٹوکو سندھ حکومت کے یہ احکامات ملے تو وہ بہت روئیں، سخت احتجاج کیا لیکن چونکہ اس وقت تک ملک میں الیکٹرانک میڈیاکا جن ابھی بوتل میں بند تھا‘ اس لیے سوائے چند لوگوںکے کسی کو ان کی بے بسی اور رونے پیٹنے کا علم نہ ہو سکا۔ اس بیوہ خاتون کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے تین ماہ قبل اکتوبر 1993ء کے عام انتخابات میں لاڑکانہ کی نشست کے لیے اپنے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔
جن لوگوں نے بیگم نصرت بھٹوکے شوہرکی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جانے پر پابندی کا حکم سنایا ان میں رضا ربانی، چودھری اعتزازاحسن اور خورشید شاہ کے علاوہ آج جمہوریت اور آئین و قانون کی با لا دستی کے راگ الاپنے والے کئی دیگر لیڈر بھی شامل تھے۔ آج قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کی تقریریں سنیں تو یہ سب آمریت کے سخت ترین دشمن دکھائی دیںگے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کی بد نصیب بیوہ کو اپنے مرحوم شوہرکی قبر پر جانے سے زبردستی روکا گیا تو اس نے یہ تاریخی سوالیہ جملہ کہا تھا جو 3جنوری 1994ء کو ملک کے تمام اخبارات کی زینت بنا: '' گزشتہ تین روز سے اپنے شہید خاوند کی قبر پر جانے کے لیے سندھ حکومت سے اجازت نامہ حا صل کرنے کی سرتوڑکوشش کر رہی ہوں لیکن مجھے یہ اجازت نہیں دی جا رہی، بتایا جائے کہ یہ کون سے قانون اور آئین میں درج ہے کہ بیوائوںکو اپنے مرحوم شوہروں کی قبروں پر جانے کے لیے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے؟ ہاں، میں مانتی ہوں کہ میں نے ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی انتخابی مہم چلائی، میں اس کی ماں ہوں، میں نے بھٹوکے بیٹے کی مہم چلائی ہے، جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجازالحق کی انتخابی مہم نہیں چلائی جس کی مجھے آج سزا دی جا رہی ہے‘‘۔ 4 جنوری 1994ء کو المرتضیٰ لاڑکانہ میں پریس کانفرنس
سے خطاب کرتے ہوئے بیگم نصرت بھٹو نے واشگاف الفاظ میںکہا کہ وہ کل ہر حالت میں اپنے خاوندکی قبر پر جا ئیںگی۔ مجھے اپنے خاوندکی قبر پر جانے کے لیے کسی کے پاس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر انہیں المرتضیٰ لاڑکانہ میں نظر بندکر دیاگیا۔
جب ڈپٹی کمشنر یہ حکم لے کر وہاںپہنچا تو بیگم صاحبہ نے اس سے کہا: ''ان سب کو کہہ دینا کہ اقتدار کی لت جب لعنت بنتی ہے تو ماں جیسے خون کے رشتوںکو بھی بھلا دیتی ہے‘‘۔ 5 جنوری1994ء کا سورج طلوع ہوا تو بیگم نصرت بھٹو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ المرتضیٰ سے گڑھی خدا بخش جانے کے لیے نکلیں مگرپولیس نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ گھر جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے جنم لیا تھا اس پر فائرنگ اور آنسوگیس کی بارش کر دی گئی۔ بھٹو کے ہاتھ سے لگائے ہوئے درخت زبردست شیلنگ سے گر نے لگے، تین افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ مرنے والوںکے بھیجے گھرکے فرش پر بکھرگئے، درجنوں زخمیوں کے خون سے گھر کا فرش رنگین ہوگیا۔
بیگم نصرت بھٹوکو اپنے مرحوم خاوندکی قبر پر جانے سے زبردستی روک دیا گیا۔ جب وہ بیوہ کالی چادر اوڑھے المرتضیٰ میں بین کر رہی تھیں تو اچانک آسمان کی طرف سر اٹھاکرکہا : ''میرے سرتاج ! اگر آج تم زندہ ہوتے تو میرے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ آج میرے سر پر چا در رکھنے والا بھی کوئی نہیں ۔ جنرل ضیاء نے مجھے اپنے شہید خاوند بھٹو کا چہرہ دیکھنے کی اجا زت نہیں دی تھی اور آج مجھے اپنی بیٹی نے خاوندکی قبر پر جانے کی اجازت نہیں دی‘‘۔
کیا23 مارچ کو لاہور، کراچی، ملتان اوراسلام آباد کی بیکریوں سے کیک ختم ہوگئے تھے؟ کیا پاکستان کے ہرکونے میں پیپلز پارٹی اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے؟کیا 'بھٹو دے نعرے وجن گے‘ کی دھنیں ناپید ہو گئی تھیں؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ بیگم نصرت بھٹو کی سالگرہ منانے والوںکو اب کسی بھی جانب سے شاباش دینے والا کوئی نہیں ؟ بیگم نصرت بھٹوکی قبر پر حاضری دینے والوںکے مرتبے میں اضافہ کرنے والا کوئی نہیں ؟ 4 اپریل آنے میں چند دن باقی ہیں جب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکی برسی منائی جائے گی۔ سنا ہے اس میں شرکت کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ اس دن پاکستان کے عوام اور بھٹوکے بچے کھچے جیالے دیکھیںگے کہ پارٹی کا ہر لیڈر اورکارکن اپنی حاضری لگوانے کے لیے بھٹو کے مزار پر پھول چڑھاتے دکھائی دینے کے لیے دھکم پیل کر رہا ہوگا، لیکن صرف دس روز قبل، جی ہاں صرف دس روز قبل قائد عوام کی اہلیہ محترمہ بیگم نصرت بھٹوکی قبر پرکوئی دکھائی نہ دیا۔ کیا اپنے اور کیا بیگانے سب سوئے ہوئے تھے، میٹھی نیند ، بہت ہی گہری نیند ۔
اپنے استاد محترم گوگا دانشورکو جب بیگم نصرت بھٹو سے پیپلز پارٹی کے جیالوں کی بے اعتنائی اورمرحومہ کو گڑھی خدا بخش جانے سے روکے جانے کا قصہ سنایا تو وہ حیرت میں گم ہوکر کہنے لگے،کیا یہ سچ ہے؟ میں نے کہا، تمام پبلک لائبریریوں اور ہر قومی اخبارکے دفتر میں محفوظ یکم جنوری 1994ء تا 6 جنوری 1994ء کے اخبارات کے صفحہ اول پر یہ کہانی پوری تفصیل کے ساتھ مو جود ہے۔ مر حومہ بیگم نصرت بھٹوکا 6جنوری 1994ء کو کہا گیا یہ دلدوز جملہ آج بھی تاریخ کی امانت ہے: '' آج ضیاکی آمریت بھی بینظیر بھٹوکی جمہوریت پر شرمندہ ہوگی‘‘۔