"MABC" (space) message & send to 7575

شکوہ

ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے نجی ٹیلی ویژن پر انٹرویو کے دوران شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ساتھ ''امتیازی سلوک‘‘ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ پنجابی یا پٹھان نہیں اور نہ ہی ان کا تعلق سندھ اور بلوچستان کے کسی وڈیرے یا جاگیردار اور سردار خاندان سے ہے۔ وہ اگرمہاجر نہ ہوتے تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا جو ان کے ''مقامی‘‘ ساتھی سائنسدانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ قدیر خان اگر اپنے اس دعوے پر سنجیدگی سے غور کرتے تو انہیں اس کے بے بنیاد ہونے کا علم ہو جاتا۔ کیا انہیں علم نہیں کہ پنجابیوں، پٹھانوں اور بلوچوں سمیت سندھیوں نے ہی انہیں پاکستان کا گھنٹہ گھر بنایا۔ کیا وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ایٹمی ریسرچ سے تعلق رکھنے والے اُن کے ساتھی سائنسدانوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ صرف ایک ''مہاجر‘‘ کو اس قدر اہمیت اور پبلسٹی کیوں دی جا رہی ہے‘ جبکہ اس کے مقابلے میں ہماری خدمات ان سے کہیں زیا دہ ہیں؟ دیکھا جائے تو ڈاکٹر قدیر خان کے یہ الفاظ مناسب نہیں ہیں۔ ان کی باتیں سن کر سماعت پر شک ہونے لگا کہ یہ سب کچھ وہ شخص کہہ رہا ہے جسے پاکستان اور اس کے بلاتفریق تمام شہریوں نے انہیں حددرجہ سرفرازی اور عزت و احترام دیا۔ پاکستان نے اپنے تمام وسائل اُن کے قدموں میں ڈھیر کر دیئے‘ انہیں شہرت کی اس بلندی تک پہنچا دیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔پورا پاکستان ان کے قدموں میں آنکھیں بچھائے کھڑا رہتا تھا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے انہیں ہالینڈ سے پاکستان بلا کر شہرت کا تاج ان کے سر پر سجایا‘ وہ مہاجر نہیں سندھی تھے؛ بلکہ جاگیردار بھی۔ ان حقائق کی موجودگی میں وہ کس طرح شکوہ کر سکتے ہیں کہ انہیں مہاجر ہونے کی سزا دی جا رہی ہے؟ جنرل ضیاالحق کا خاندان مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتا تھا اور یہ جنرل ضیا ہی تھے جنہوں نے انہیں اپنے سے بھی زیا دہ سکیورٹی اور پروٹوکول دینے کا حکم دے رکھا تھا۔ اسی جنرل نے انہیں پاکستان میں اس قدر عزت و مقام دیا کہ قوم کو یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ ایٹم بنانے کیلئے صرف ایک ہی شخص کام کر رہا ہے جس کا نام ڈاکٹر قدیر خان ہے۔ حالانکہ اس کام میں سائنسدانوں کی پوری ٹیم مصروف تھی۔ یوں بھی ایسے کام فردِ واحد نہیں ٹیم کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کسی نے ایٹمی دھماکوں تک کبھی کسی دوسرے سائنسدان کا نام بھی میڈیا پر دیکھا‘ سنا یا پڑھا۔ ڈاکٹر صاحب کی ان باتوں پر کہ مہاجر ہونے کے ناطے اُن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا‘ ہر محب وطن پاکستانی کو دکھ ہوا۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ حکمرانوں نے آپ کو سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا ‘ناز نخرے اٹھائے کہ کوئی دوسرا سائنسدان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا؛ جبکہ ان میں سے کوئی بھی مہاجر نہیں تھا۔ آپ یہ الزامات نہ جانے کس بنیاد پر لگا رہے ہیں؟ سابق صدر مرحوم غلام اسحاق خان مہاجر نہیں بلکہ پختون تھے‘ انہوں نے آپ کے ساتھ جو برتائو کیا‘ کیا آپ اسے بھی بھول گئے؟ وزارت خزانہ کا ریکارڈ گواہی دے رہا ہے کہ (پٹھان) صدر غلام اسحاق خان نے آپ کو فراخ دلی کے ساتھ بے تحاشا فنڈز دیئے کہ جاننے والے حیران رہ گئے۔ انہوں نے وطن عزیز کے تمام وسائل آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دیئے۔ آپ کو مرضی سے تمام فنڈز خرچ کرنے کی کھلی اجا زت تھی‘ آپ سے پوچھ گچھ کی کسی کو اجازت نہیں تھے۔ اگر آپ کو شکوہ جنرل پرویز مشرف سے ہے تو وہ بھی مہاجر ہیں۔
اگر بُرا نہ منائیں تو دو ایک واقعات گوش گزار کر دوں‘ جس سے پتہ چل سکے گا کہ آپ کس طرح ذاتی دوستوں اور میڈیا پرخرچ کرتے رہے۔ مثلاً آپ نے مبینہ طور پر اپنے منظور نظر پامسٹ کو ایٹمی ریسرچ کیلئے دیئے جانے والے سرمائے سے بہترین گھر اور قیمتی گاڑی تحفہ کے طور پر دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس کا کیا جواز تھا؟ آپ جیسا بہترین یاد داشت رکھنے والا کیسے بھول سکتا ہے کہ آپ کے دفتر کی تزئین و آرائش‘ بہترین ائر کنڈیشنڈ کی تنصیبات‘ اعلیٰ دفتری فرنیچر اور برانڈ نیو قیمتی گاڑی مع لا محدود پٹرول استعمال کرنے کے اخراجات قومی خزانے سے ہی ہوئے۔
ڈاکٹر قدیر خان صاحب! آپ یہ بھی تو جانتے ہی ہوں گے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی فوجوں کے ہاتھوں جرمنی کا ناروے میں کام کرنے والا ہارڈ واٹر پلانٹ جب تباہ ہو گیا تو انہیں متبادل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اگر وہ نئے سرے سے مکمل پلانٹ لگاتے تو ا س کیلئے بہت وقت چاہئے تھا اس لئے جرمنوں نے اس کیلئے '' سنٹری فیوج‘‘ کے نام کا ایک بالکل ہی نیا طریقہ اختیار کیا اس سسٹم میں انہوں نے گیس کا استعمال کیا اور ان کا یہ طریقہ کامیاب ہو گیا‘ جس پرانہوں نے ایٹم بم کے
اس پیٹنٹ کو ( ہالے میں) رجسٹر کروالیا‘ جب یہ رجسٹر ہوگیا تو جرمنی کے قانون کے مطا بق کوئی بھی شخص اس وقت کے پانچ مارک دے کر اس کی کاپی لے سکتا تھا اور یہی وہ ''راز‘‘ تھا جو آپ ساتھ لے کر آئے تھے۔ جرمنوں نے جہاں پر یہ سسٹم شروع کیا تھا وہ مشرقی جرمنی میں تھا‘ اب وہ جگہ متحدہ جرمنی میں آ گئی ہے اور اس جگہ کا نامHalle ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست اوردو حصوں میں تقسیم کے بعد (مغربی) جرمنی کو نیٹو کی تشکیل اور یو این او کے ذریعے تھوڑی بہت آزادی ملنی تو شروع ہو گئی لیکن انہیں ٹربائن، میزائل اور اٹامک ٹیکنالوجی کے قریب بھی جانے کی اجا زت نہیں تھی؛ بلکہ ایک حکم کے تحت جرمنی اور جاپان کی جتنی بھی ایٹم سے متعلق شعبوں سے متعلق ریسرچ رجسٹر ہوئی تھیں انہیں '' ان رجسٹرڈ‘‘ قرار دے دیا گیا۔ اس وقت ہالینڈ کے سربراہ لُنڈ نے جرمنی کے شمت سے جن کی آپس میں گہری چھننے لگی تھی ایک ملاقات میں پوچھا کہ جرمنی نے ایک سنٹری فیوجل سسٹم بنایا تھا اس کا کیا بنا؟ جس پر وہ ریکارڈ نکلوانے کے بعد اس کی کاپیاں کرائی گئیں اور جرمنی اور ہالینڈ نے اس پر ''مزید تحقیق‘‘ کی تکنیک استعمال کی؛ یعنی دھماکہ کیے بغیر ہی ایٹم بم بنانا۔ ہالینڈ سے چوری والا ڈرامہ تھا کیونکہ کون نہیں جانتا کہ بہت سی مشینوں میں سنٹری فیوجل سسٹم کا استعمال ہوتا ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں تو یہ عام ہے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں