"MABC" (space) message & send to 7575

روز کا ایک کھرب؟

اگر یہ خبر درست ہے تو پھر نا قابل معافی ہے کیونکہ لگتا ہے‘ پاکستان کو خود کشی کی جانب دھکیلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ خبر کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایک بینک کے حصص 160 روپے کے حساب سے بیرون ملک کے کچھ لوگوں کو فروخت کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں جبکہ ان حصص کی قیمت اس سے پیشتر210 روپے تھی اور جس کے بارے میں معاشی ماہرین بڑے وثوق سے بتا رہے ہیں کہ یہ حصص جلد ہی 250 روپے تک پہنچ جائیں گے۔ کیا ہر جانب معاشی دہشت گردی اورلوٹ مار کو روکنے والا کوئی بھی نہیں ہے؟۔ ملک کی عزت و آبرو سے محبت کرنے والی کوئی بھی حساس دل قوت پاکستان کے خلاف کی جانے والی اس طرح کی اکنامک دہشت گردی کے خلاف بھی کبھی آخری حد تک جانے کی کوشش کرے گی؟۔ آج ہر پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ ملک کے وسائل بیرونی ممالک میں کن جگہوں پر اور کس طرح چلے گئے ہیں اور ان کے ذمہ دار کون ہیں؟۔ ماڈل ایان علی کے پانچ لاکھ چھ ہزار ڈالر تو صرف ایک فلائٹ کی داستان ہے‘ پاکستان سے ساڑھے چار ارب ڈالر چند ماہ میں صرف دبئی میں منتقل کئے جا چکے ہیں اور ایان علی کے واقعہ کی ہی رات کو ایک ارب ڈالر دبئی جانے والی ایک لانچ سے پکڑے گئے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر کن کے ہیں اور پاکستان کی کس کس رگ سے نچوڑ کر نکالے گئے تھے؟ ڈریکولا کے ان ہاتھوںکی تلاش کیلئے ہر وہ پاکستانی بے تاب ہے جو دل وجان سے پاکستانی ہے نہ کہ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کی وجہ سے؟ 
ملک میں ابھی گرمیوں کے موسم کا آغاز ہی ہوا ہے کہ لو ڈ شیڈنگ کے عذاب نما اندھیروں نے ہر فرد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگ لائٹ اور پنکھوں سے محروم ہوتے ہیں تو قطعی غلط ہے۔ اس لوڈ شیڈنگ سے شہروں، تحصیلوں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ہر قسم کی چھوٹی بڑی دکانوں‘ خراد مشینوں اور نہ جانے کتنی چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتوں کے بند ہوجانے سے ہر گھر بری طرح متاثر ہوتا ہے بلکہ اب تو ''پنکچر‘‘ لگانے والے بھی لوڈشیڈنگ میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اور اس کے ذمہ داروں کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس دفعہ کون سے نئے اور اچھوتے قسم کے جھوٹ کا سہارا لے کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جائے؟ مسلم لیگ نواز کی اسلام آباد میں براجمان حکومت کے اقتدار کو جب گیارہ ماہ کا عرصہ گزر ا تھا تو اس وقت ملک کو پاور پلانٹس کی مد میں ایک کھرب روپے روزانہ کا نقصان پہنچ رہا تھا یعنی 41 ملین روپے فی گھنٹہ یا سات لاکھ روپے فی منٹ۔ اگر کسی کو ایک کھرب روپے روزانہ نقصان ہو رہا ہو یا ایک کھرب روپے روزانہ کی آمدنی ہو رہی ہو تو لوگوں کو پوچھنے کا نہ ہی‘ سوچنے کا حق تو ضرور ہونا چاہئے کہ یہ کون سا کاروبار ہے جس سے کسی کو روزانہ ایک کھرب روپے کا نفع اور دوسرے کو نقصان کیسے ہو رہا ہے؟
پانچ جون2013ء کو میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم پاکستان کے عہدہ کا حلف لیا اور اس کے تھوڑی ہی دیر بعد مسلم لیگ نواز کی عوامی حکومت نے پاور پلانٹس کیلئے 480 ارب روپے کے گردشی قرضہ کی یکمشت ادائیگی کی۔ اس کے بعد سے آج تک ایک کھرب روپے کے حساب سے 345 ارب روپے کے گردشی قرضے پاکستان پر بوجھ بن کر سوارہو چکے ہیں۔ 
وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ بجلی پیدا کرنے کے اخراجات اسے بیچنے کی قیمت سے زیا دہ ہوتے جا رہے ہیں( دن بدن تیل سستا جو ہوتا جا رہا ہے)‘ ا س لئے آئی پی پیز کے ہم پر گردشی قرضے خود بخود بڑھ رہے ہیں۔ محترم وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف صاحب! آپ تحریک انصاف کو تو پارلیمنٹ میں منہ اٹھا کر چلے آنے پر بے غیرتی کے طعنے دیتے ہوئے اچھے دکھائی دے سکتے ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے بالکل بھی اچھے نہیں لگتے۔ اب آپ جیسے وزیر پانی و بجلی کو یہ بتانے کی گستاخی کون کرے کہ جناب والاــ‘ پاکستان میں کام کرنے والے آئی پی پیز 100KWh کیلئے24 kg تیل استعمال کر رہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں اس طرح کے کام کرنے والے پاور پلانٹس100KWhکی پیداوار کیلئے صرف14kg تیل استعمال کرتے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی یا را ز 
کی بات نہیں‘ کہیں سے بھی اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔جب یہ ایک واضح اور سامنے نظر آنے والی حقیقت ہے تو پھر نواز لیگ کی حکومت ملک اور قوم کے خزانوں کو لٹنے سے بچانے کیلئے اس کا سدباب کیوں نہیں کرتی؟ کیا مجبوری ہے جو ان پاور پلانٹس کے مالکان کی جانب سے کی جانے والی من مانیوں کے سامنے اسے بے بس کیے ہوئے ہے؟ محترم خواجہ صاحب آپ کا حال تو یہ ہے کہ نندی پور پاور ہائوس میں آپ نے جو '' کمال ‘‘ کیا، اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے چوبیس ارب روپے کا بوجھ بھی آپ غریب صارفین پر ڈالنے والے تھے لیکن نیپر ا یہ کہتے ہوئے آپ کی راہ میں کھڑا ہو گیا کہ اپنی غلطیوں کی سیاہی عوام کے منہ پر نہ ملیں۔ 
کیا خواجہ آصف اور جناب اسحاق ڈار کسی وقت قوم کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے یہ پار پلانٹس ایک یونٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے گیس کا ستعمال12000BTU کیوں کر رہے ہیں جبکہ ہم سے چند سو کلومیٹر دور بھارت میں بجلی پیدا کرنے والے یہی پاور پلانٹس بڑی مشکل سے5000BTUs استعمال میں لا رہے ہیں؟ خواجہ صاحب عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ فی یونٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے یہ اضافی سات ہزار بی ٹی یو گیس کدھر جا رہی ہے؟، اور یہ کہ قوم کے چولہوں سے چھینی ہوئی یہ قدرتی گیس کون لوگ مفت کا مال سمجھ کر لے کر جا رہے ہیں؟۔پانی و بجلی کے وزراء خواجہ آصف اور عابد شیر علی صاحبان فرماتے ہیں کہ گشتی قرضے دن بدن دوگنا ہونے‘ بجلی کے مہنگا ہونے اور لوڈ شیڈنگ پرآپ کی حکومت ذمہ دار نہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بجلی زیا دہ تر چوری کی جا رہی ہے اور اس چوری کی وجہ سے لائن لاسز پچیس فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔ جناب والا‘ یہ لائن لاسز ٹیکنیکل وجوہ کی بنا پر ہیں یا نان ٹیکنیکل وجہ سے؟۔کیونکہ اگر ٹیکنیکل وجہ کی بات کی جائے تو اس کی وجہ ٹرانسفارمرز اور تاروں کا بوسیدہ نظام ہے اور اگر نان ٹیکنیکل ہے تو یہ کس کی نا اہلی ہے؟۔ اب اگر گھروں میں ہونے والی بجلی چوری کی بات کی جائے تو پھر باقی70 فیصد لائن لاسز کس کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے اوراس کے ذمہ داروں کا فیصلہ کون کرے گا؟۔کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ وزارت پانی و بجلی اپنے فرائض ادا کرنے میں قطعی نا کام ہو چکی ہے؟
جیسے جیسے موسم اپنی تبدیلی کے مقررہ معیار کی جانب بڑھ رہا ہے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ ایک لوڈشیڈنگ تو وہ ہے جو شہروں میں آٹھ گھنٹے اور دیہات میں بارہ سے چودہ گھنٹوں کیلئے کی جانے لگی ہے لیکن ایک لوڈ شیڈنگ وہ ہے جو ہفتے میں ایک دن صبح 8/9 بجے سے دو اور تین بجے تک پانچ سے سات گھنٹے مسلط کی جا رہی ہے اور اسے ہمارے مہربان وزراء کرام لوڈ مینجمنٹ کا نام دے کر قوم کو جھلسا رہے ہیں۔ جناب والاقوم کو یہی بتایا جاتا تھا کہ واپڈا ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے لیکن اگر سچ سننے کی ہمت ہے تو سنیں کہ آپ نے تو اب پاور پلانٹس کی شکل میں کئی سفید ہاتھی پاکستان کی چوکھٹ بلکہ پاکستانیوں کی گردن سے باندھ رکھے ہیں...!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں