ملکوں کے مابین دوستی اور تعلقات کی نوعیت ''ایک شخص کے دوسرے شخص سے‘‘ تک محدود ہو جائے تو ان کا فائدہ بھی ان دونوں تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ قوموں اور ملکوں کے وہی تعلقات دیرپا ہوتے ہیں جن میں ان کے عوام کو بھی شامل کیا جا ئے۔ یہی وہ مسلمہ اصول ہے جسے چین کی عوامی حکومت نے ہر دور میں اپنے سامنے رکھا، لیکن چین کے معزز مہمان کی آمد پر دنیا بھرکا میڈیا یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ پاکستان کی صرف ایک اکائی ہوائی اڈے پر دکھائی دی اور جو منصوبے بتائے اور دکھائے گئے ان میں سے بیشتر پنجاب کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ باقی اکائیوںکو نظر اندازکرنے کا عوام پر اچھا تاثر نہیں پڑا۔ یہی سوال شیفیلڈ سے آئے ہوئے آزاد کشمیر کے دوست منشا خان نے پوچھاکہ طے پانے والے معاہدوں میں پاکستان کی دوسری اکائیاں کیوں دکھائی نہیں دے رہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ حکمران اپنی طرف سے یہ بھرپور تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیںکہ صدرشی چن پنگ جوکچھ کر رہے ہیں اورکرنے جا رہے ہیں وہ سب صرف انہی کے لیے اورانہی کی وجہ سے کر رہے ہیں؟
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن چین کے صدر کی آمد پر اسلام آباد ایئرپورٹ کا منظر دیکھنے کے بعد ان کا یہ فقرہ قابل توجہ ہے کہ ''کیا چینی صدر پنجاب کے دورے پر آئے ہوئے ہیں؟‘‘ 1954ء میں جب پاکستان سے امریکہ کی دوستی کا آغاز ہوا اور ابتدا میںامریکہ سے بھاری مقدار میں غذائی اجناس اور دوسری اشیا تحفے کے طور پر پاکستان پہنچنا شروع ہوئیں تو ان پر امریکہ اور پاکستان کے صدورکی تصویریں نہیں بلکہ ایسے مونوگرام ہوتے تھے جن میں امریکہ اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ہاتھوںکو مضبوطی سے تھاما ہوتا تھا۔ ان ہاتھوں پر اپنے اپنے ملک کا قومی پرچم بنا ہوا تھا۔ چین کی دوستی کا آغاز بھی اسی طریقے سے ہوا تھا جو آ ج تک اسی سوچ اور جذبے سے جاری ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے صدر‘ پاکستان کے دو روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے، لیکن پاکستان میں انہوں نے فقط حکمرانوں سے ملنے یا فقط حکمران جماعت کے سربراہ خاندان سے ملنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے سربراہ سے ملاقات کی اور پاک چین دوستی کا اظہارکیا جسے عوام کی مدد اور سپورٹ حاصل ہے۔ انہوں نے ان کو اپنے دورے کے ایجنڈے کی بریفنگ دینا اور ان کے خیالات سے آگاہی حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ اسے کہتے ہیں 'عوام سے عوام تک کی دوستی‘ اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی چین کے بارے میں پاکستانی رائے عامہ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس کے عوام کی ان کے لیے پسندیدگی پہلے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
چین کی عوامی حکومت نے پاکستانی عوام کو بتا دیا ہے کہ وہ کسی ایک خاندان یا مخصوص سیا سی پارٹی کے کہنے پر پاکستان نہیں آئے اور نہ ہی ان کا پیکج کسی فرد واحد کے لیے ہے بلکہ یہ پاکستان کے ہر شخص کی فلاح وبہبود کے لیے ہے۔ چینی قیادت نے واضح پیغام دیا ہے کہ ان کی دوستی اور تعلقات عوام کی حمایت رکھنے والی پاکستان کی ہر جماعت سے ہیں اور وہ ان سب کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ان کی نظر میں جو مقام شریف برادران کا ہے وہی آصف علی زرداری اور عمران خان کابھی ہے۔
یمن کے بحران پر جب ایک فریق کی مدد کے لیے پاکستان میں رائے عامہ کا جائزہ لیاگیا تو حیران کن طور پر عوام کی واضح اکثریت یمن کے خلاف فوج بھیجنے کے حق میں نہیں تھی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا سبب جاننے کے لیے زیا دہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ چین کے معزز اور قابل صد احترام صدرکی مثال کو ہی سامنے رکھ لیجیے۔ عرب حکمرانوںکے ساتھ پاکستان کے حکمران خاندان کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ پاکستان کے وہ عوام جو حکمرانوں کی پالیسیوں اور سیا ست سے اتفاق نہیں رکھتے انہوں نے ایک خاندان کی خوشنودی کو اہمیت نہیں دی۔ اس کے برعکس چین اور پاکستان کی دوستی عوام کی سطح پر ہے، پاکستان کی ہر حکومت کے چین کے ساتھ بہترین تعلقات رہے ۔چین بھی اپنا ہاتھ کسی فرد واحد کی طرف نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی جانب بڑھاتا اور پوری قوم کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔
چین کے صدر شی چن پنگ نے اپنے لڑ کپن اور زمانہ طالب علمی میں پاک چین دوستی کو پنپتے اور بڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں اور شعورکی روشنی میں دیکھا۔بے شک وہ پہلی مرتبہ پاکستان کے دورے پر آئے لیکن انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں ممالک نے کب اورکہاں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ ان میں وہ مراحل بھی ہیں جو سامنے ہیں اور وہ بھی جو ابھی تک عوام کی نظروںسے پوشیدہ ہیں، لیکن دونوں ملکوں کی قیادتوں کے دلوں میں ابھی تک محفوظ ہیں ۔ جناب شی چن پنگ پاک چین دوستی کا احوال دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''جب میں جوان تھا تو اکثر پاک چین دوستی کی کہانیاں سنا کرتا تھا، جب کوئی بھی چین کو چلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا تھا اس وقت پاکستان ہی تھا جس نے چین کو دنیا سے رابطے قائم کرنے اور روابط بڑھانے کے لیے فضائی راستے فراہم کیے۔ جب چین کو اقوام متحدہ کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جا رہا تھا تو اس وقت پاکستان نے چین کے اقوام متحدہ میں جائز مقام کے لیے جو بھر پور مدد کی وہ چین کبھی بھلا نہیں سکتا اور پھر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور امریکی صدر نکسن کے دورہ چین کے لیے پاکستان نے جو خدمات فراہم کیں وہ تو روز روشن کی طرح چمکتی ہوئی سب کو نظر آ رہی ہیں‘‘۔
شکریہ عوامی جمہوریہ چین ! صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تمام اکائیاں آپ کی توجہ کی منتظر رہیں گی۔۔۔۔!