"MABC" (space) message & send to 7575

جلد‘ بہت جلد

دو واقعات ایک ساتھ ہوئے۔ ایک ہی دن۔ بھارت نے پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والے '' اکنامک کاریڈور‘‘ پر اعتراض کر دیا اوراسی دن‘ اسی وقت کراچی میں پینتالیس معصوم اور بے گناہ مسلم جانوں کا قتل عام کر دیا گیا۔ کہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ایسا کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کارڈز میز پر بکھیر کر رکھ دیئے ہیں؟۔ کیا پاکستان اب اکیلے ہی کارڈز کھیلتا رہے گا یا بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کی ہمت بھی کرسکے گا؟ اس سے پہلے ایک امن پسند سماجی ورکر کو قتل کرایا گیا تاکہ بلوچستان کے لوگوں کو بتایا جائے کہ آپ سے ہمدردی رکھنے والی آواز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ کراچی صفورا چورنگی پر برپا کی جانے والی کربلا پر تو عام ذہن بھی پکار اٹھا ہے کہ یہ خنجر اسی ازلی دشمن کی جانب سے گھونپا گیا ہے جس نے ہمارے جسموں کو جگہ جگہ سے زخمی کر رکھا ہے ۔ اس دفعہ ان ہاتھوں کی طرف سے آغا خان کمیونٹی کو نئے ٹارگٹ کے طور پر اس لئے چنا گیا تاکہ پاکستان اور دنیا بھر میں انتہائی با اثر سمجھی جانے والی آغا خان کمیونٹی کو نشانہ بنا نے سے لمحہ بھر میں اس دہشت گردی کی گونج بہت ہی دور دور تک جا پہنچے اورملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور تجارتی طبقے کی جانب سے ایک ہی آواز سنائی دینے لگے کہ پاکستان میں اب کوئی بھی اور کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔میرے اس نقط نظر کو ذہن میں رکھیں‘ میں اسے بار بار دہراتا رہوں گا کہ کراچی میں آغا خان کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا مقصد سوائے اکنامک کاریڈور کے سب سے اہم اور نازک حصے میں بسنے والی ایک غالب اکثریت کو پاکستان سے بد ظن کرنے کے‘ اور کچھ نہیں۔ بلتستان اور ہنزہ وادی میں بسنے والے یہ پر امن لوگ سب کے سامنے ہیں۔دشمن نے اس بربریت کا منظر پیش کرتے ہوئے غیر ملکیوں کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں آپ کی زندگیاں محفوظ نہیں رہیں گی۔
اگر مگر کی بات نہیں کھلے دل سے اب ہم سب کو مان لینا چاہئے کہ بھارت ہماری کمر میں خنجر پہ خنجر گھونپتے میں مصروف ہے اور ہم اس کی دوستی کیلئے ترلے منتیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا اقوام عالم بھول گئیں وہ وقت اور وہ الفاظ جب ممبئی کے 26/11 واقعہ کے بعد امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے نئی دہلی ایئر پورٹ پر کھڑے ہو کر پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا ''اس دفعہ تو ہم نے بڑی مشکل سے بھارت کو راضی کر لیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہ کرے لیکن اگر اس طرح کا واقعہ بھارت میں دوبارہ ہوا تو پھر ہم بھارت کا ہاتھ نہیں پکڑیں گے‘‘۔۔۔ یہی دھمکی اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون نے بھی بھارت کی سر زمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کو دی تھی۔ کاش ہماری سیا سی قیادت بھی فوجی قیا دت کی طرح مصلحت اور بزدلی کے فرق کو سمجھ سکے؟۔اب کہاں گئی وہ امریکی اور برطانوی سوچ؟ اب سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ لوگ خاموش کیوں ہیں؟
وہ اصل بات نہ جانے کیوں بھلا دی گئی ہے! نہ جانے کیوں ہمارے نصاب سے نکال دی گئی ہے کہ جب تک دشمن کو اسی کی زبان میں‘ اسی کے لہجے میں‘ اسی کے انداز میں اس کا بازو مروڑ کرجواب نہیں دیا جائے گا ا س وقت تک پاکستان میں حالات بہتری کی جانب کبھی نہیں بڑھ سکیں گے‘ بلکہ بد قسمتی دیکھئے‘ اور بھارت کی خوش نصیبی‘ کہ ہمارے میٹرک کے نصاب میں کارگل آپریشن کو قابل نفرت قرار دے دیا گیا ہے۔ کیا یہ بھارت کی کاسہ لیسی نہیں؟ کیا میٹرک کے طالب علم لڑکوں‘ یعنی کل کو جوان ہونے والی نئی نسل کیلئے یہ اس زہر آلود گولی کی طرح نہیں جس پر چینی لپیٹنے کی بھونڈی حرکت کی گئی ہو۔ آپ قوم کے بچوں کے ذہنوں میں یہ زہر کیوں اور کس کی خوشنودی کیلئے انڈیل رہے ہیں؟ فوجی قبضے کی بات کرنے والے اور اسے نصاب کا حصہ بنانے والے اپنے جھرلو انتخابات کو بھی تو سامنے رکھیں کہ کس طرح اور کب کب انہوں نے پرچی کے نام پر ملک پر قبضہ کیا۔ پھر بلوچستان میں ایک ایک قدم پر بھارت کی بر پا کی جانے والی دہشت گردی کا ایک ایک ثبوت آپ کے پاس ہے۔ کراچی میں ہر روز
لاشوں کے ڈھیر لگانے کی سازش کی تمام کڑیاںآ پ کے سامنے ہیں‘ اس پر آپ کیوں خاموش ہیں؟ کراچی میں عورتوں اور بچوں سمیت پینتالیس معصوم جانوں کو بے رحمانہ اور سفاکانہ طریقے سے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور ہم خاموش رہے۔ سوائے مذمت کے‘ کچھ بھی نہ کر سکے۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں قوم کے ایک سو پینتیس ننھے معصوم بچوں کا بے رحمانہ قتل عام کیا گیا اور اس وقت بھی ہم مذمت کرکے سمٹ کے بیٹھ گئے‘ حالانکہ ہمیں خون میں نہلانے والے دشمن کی اسی طرح مرمت کرنی چاہئے تھی جس کاوہ صحیح معنوں میں حق دار تھا۔ کیا پاکستان کی مائوں نے اس طرح کے بچے جننا بند کر دیئے ہیں جو دشمن کو اسی زبان اور اسی کے انداز میں جواب دے سکیں؟۔ بھارت نے ان معصوم اور امن پسند لوگوں کو گولیوں کی بارش سے بھون کر ا یک طرح سے کھلی اور ننگی دھمکی دے دی ہے کہ '' کر لو جو کرنا ہے‘‘۔ اور ہم شاید زبان سے وہی ایک جملہ دہراتے رہیں گے کہ ''اِب کے مار... اِب کے مار‘‘۔
'را‘ نے وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے دورہ افغانستان کا جواب پچیس گھنٹے گذرنے سے بھی پہلے 45 پاکستانیوںکی لا شوں کی صورت میں دے دیا ہے۔ ابھی وزیر اعظم اور آرمی چیف صدر اشرف غنی کو افغانستان سے بھارتی را کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کر کے وطن واپس لوٹے ہی تھے کہ را اپنے چہرے پر ڈالے ہوئے نقاب کو الٹ کر صفورا چورنگی میں اپنے تیز‘ نوکیلے اور خون آمیز دانتوں کے ساتھ ہمارے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ ایک طرف وہ معصوم پاکستانیوں کا خون چاٹ رہی ہے تو دوسری جانب سب کو یہ کہے جا رہی ہے کہ بھارت کو پاکستان اور چین کے مشترکہ اکنامک کاریڈور کے روٹ پر اعتراضات ہیں؟۔ کراچی صفورا چورنگی میں برپا کی جانے والی اس اندوہناک دہشت گردی کی ٹائمنگ کوبھی سامنے رکھنا ہو گا کیونکہ جب یہ واقعہ ہو اسی وقت عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے چھیالیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اور اس کیلئے تجارتی کاریڈور کی تعمیر کے منصوبے پر وزیر اعظم نوازشریف کی بلائی جانے والی اے پی سی کا وقت مقرر تھا اور جب پاکستان کی تمام سیا سی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر اکنامک کاریڈور پر اپنی تصدیقی مہر ثبت کر رہی تھیں‘ اسی وقت صفورا چورنگی پر بس میں بیٹھی ہوئی عورتوں اور بچوں کے سروں میں گولیاں ماری جا رہی تھیں اور اسی دن آرمی چیف جنرل راحیل شریف سری لنکا کے تین روزہ اہم سرکاری دورہ پر روانہ ہونے والے تھے۔ دوسری طرف زمبابوے کرکٹ بورڈ اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو چکا تھا اور اس سلسلے میں زمبابوے کرکٹ بورڈ سکیورٹی کا بھر پور جائزہ لینے کے بعد مطمئن ہو کر اپنا دورہ پاکستان مکمل کر کے جا چکا تھا۔
ہر پاکستانی کو اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ایک ایک فرد کو معصوم اسماعیلیوں کے قاتل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے دن رات ایک کر نا ہو گا۔ جلد اور بہت ہی جلد!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں