متنازع ، متعصب اور غیر جانبدار منصف اورجج‘ اپنے ملک میں ہو یا اقوام عالم سمیت کسی عالمی فورم میں فرائض انجام دے رہا ہو‘ اس کے فیصلے تاریخ میں سیاہ حرفوں سے ہی لکھے جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ ان کے چہرے پر جو سیاہی ثبت کر تی ہے اس کے نشانات اس دنیا میں بھی اور دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی بھیانک اور مکروہ ہی نظر آتے رہتے ہیں۔ متعصب فیصلوں کی تباہ کاریاں ان منصفوں کے نامہ اعمال کی سیاہ کاریوں میں اضافہ ہی کرتی ہیں بلکہ کرہ ارض پر بسنے والی ہر مخلوق چرند، پرند؛ حتیٰ کہ جنگلات اور نباتات تک پانی کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ پانی روح کی مانند ہے۔ اسی پر ہرذی روح کی حیات کا مدار ہے جو بھی ان کا پانی چھیننے کی کوشش کرے گا اس کوشش میں کسی کا ساتھ دے گا وہ قہر الہٰی سے کسی صورت بھی نہیں بچ سکے گا۔
بگلیہار پر یک طرفہ فیصلہ دینے والے اور ان کو بھارت کے حق میں فیصلے کے لیے اکسانے والے نہ جانے کیوں ایک بہت ہی اہم نکتے کو بھول رہے ہیں کہ 1960ء میں جب سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے سر منڈھا گیا تھا تو اس وقت پاکستان اور بھارت کی حیثیت مختلف تھی لیکن آج جب پاکستان کے منہ سے آخری نوالہ چھینا جا رہا ہے تو وہ بھارت کے مقابلے میں اس سے بھی بڑی ایٹمی قوت بن چکا ہے اور جب زندگی کو بچانے کے لیے موت کے خلاف ہاتھ پائوں مارنے پڑیں تو کسی بھی چیز کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ اس متعصبانہ اور ظالمانہ فیصلے کو جسے‘ انٹرنیشنل کورٹ کے ججوں نے بھارت کی جانب سے تعمیر کئے جانے والے بگلیہار ڈیم کے خلاف پاکستان کی اپیل پر دیا ہے‘ کسی عدالت کا فیصلہ کہنے سے بھی شرم آتی ہے۔ تعجب ہے کہ کروڑوں انسانوں کی ضروریات کے بارے میں فیصلہ کرنے والے متعصب لوگ منصف کی کرسی پر بٹھا دیئے جاتے ہیں جو کسی طور بھی اس کے اہل نہیں ہوتے ۔ عالمی عدالت انصاف (ICA)کا بھارت کی جانب جھکائو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اس مقدمے کی کارروائی سننے والے میڈیا اور غیر جانبدار مبصروں کو بھی حیران کر گیا۔ سب کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ انصاف ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے دلائل انتہائی مضبوط تھے لیکن عالمی مصالحتی عدالت کے ان ججوں کی بدن بولی اور دوران سماعت پاکستان کے وکلاء کی جانب ان ججوں کے دیکھنے کا انداز بتا رہا تھا، کہ فیصلہ کیا ہو گا؟ سب کے خدشات درست ثابت ہوئے اور فیصلہ پاکستان کے خلاف سنا دیا گیا۔ ہم حکومت اور اس کیس کی پیروی کرنے والے انڈس واٹر کمیشن کے کرتا دھرتا حضرات سے پوچھنا چاہیں گے کہ جب آپ کو ثالثی کورٹ کے ججوں کے رویے کے بارے میں ملک کے اداروں نے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ مشکوک اور متعصب خیالات کے حامل ہیں‘ تو اس وقت ان پر اعتراضات کیوں نہیں اٹھائے گئے؟۔ جب دو ماہ قبل دنیا بھر میں ''واٹر ڈے‘‘ منایا جا رہا تھا تو ہماری حکومت اور وزارت پانی و بجلی نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے اس فیصلے کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر سیمینار کیوں نہیںکروائے؟۔اگر اخراجات کا مسئلہ تھا تو ا س کے لیے میٹرو کا ایک فرلانگ فاصلہ کم کیا جا سکتا تھا کیونکہ میٹرو کے بغیر تو گزارہ ہو سکتا ہے لیکن چند برسوں بعد ہم پانی کے بغیر کیسے جی سکیں گے؟۔
گیس، کوئلہ، شمسی توانائی اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کے لیے ہر روز کروڑوں کے اشتہارات دیئے جا رہے ہیں لیکن بگلیہار ڈیم کے موضوع پر عالمی سطح پر بین الاقوامی سیمینار کرانے کے لیے سال میں ایک دفعہ اتنے پیسے خرچ کرنے میں کیا حرج ہے؟۔ افسوس تو یہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی پانی ذخیرہ کرنے کی اہمیت سے آگاہ نہیں کہ سولر، کوئلہ، گیس اور تیل سے بجلی پیدا کرنے والوں کی زندگیوں کے لیے سب سے زیادہ پانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی کل اور آج کی کسی بھی حکومت کو بتانے والا کوئی
نہیں کہ پاکستان کے پاس صرف9 فیصد پانی کا ذخیرہ ہے جو زیا دہ سے زیا دہ تیس دنوں تک کے لیے ہے جبکہ دنیا بھر میں اس کی اوسط 30 فیصد ہوتی ہے۔ ہمارے مقابلے میں بھارت کے پاس پانی کا100 دنوں سے زیادہ کا ذخیرہ ہے اور وہ ممالک جو متعصب ججوں کو پاکستان کی گردن دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ان کے پاس ایک سے ڈیڑھ سال تک کا پانی کا ذخیرہ ہے ۔ سندھ طاس کے نام سے مشہور اس معاہدے پر دستخط ہوئے آج55 سال ہونے کو ہیں لیکن ہمارے پاس اس پانی کو استعمال میں لانے کی پوری آپریشنل صلاحیت ہی نہیں جس کا فائدہ بھی بھارت کو پہنچ رہا ہے۔بھارت میں سندھ طاس سے متعلقہ کسی بھی دریا کی طرف دیکھ لیں بھارت ان سے بھر پور استفادہ کر رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا نام لینے سے ولی خان خاندان کے بموں کی دھمکیوں سے ہم سب نہ جانے کب سے سہمے بیٹھے ہیں۔پختون اب جاگ چکا ہے سمجھ چکا ہے کہ ان کا پانی کون چھین رہا ہے؟۔
بے خبر پاکستانی نہ جانے کب اپنی حکومت سے پوچھیں گے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ سڑکوں اور میٹرو کے لیے بیس کروڑ گردنوں پر تو ڈالا جا رہا ہے لیکن جب آپ کو ورلڈ بینک اورپاکستان کا زرعی ترقیا تی بینک 300 بلین روپے پانی کے ڈیم
بنانے کے لیے فراہم کرنے کو تیار ہے تو آپ ان کی یہ پیشکش کیوں قبول نہیں کر رہے؟۔کیا حکمران مستقبل میں ہمیں میٹرو کی سڑکیں چٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟۔مجھے آپ کو اور سب کو نظر کیوں نہیں آ رہا ہے کہ ملک کی زرخیز زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ بڑے شہروں ہی نہیںہر ضلع، تحصیل، قصبے اور گائوں میں آبادیاں دور دور تک پھیلتی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کی آبادی میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آخر اتنے لوگوں کے لیے خوراک کہاں سے حاصل کریں گے؟ زیر کاشت اراضی ، اگر ہائوسنگ سوسائٹیوں سے بچ گئی تو ا س کے لیے پانی کہاں سے حاصل ہو گا؟۔ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کو آگاہ ہونا چاہیے کہ بھارت بغیر کسی جنگ کے پاکستان کے حصے کے پانی پر قبضہ کرنے کے لیے دن رات سر گرم ہے۔
شائد ہمارے انجینئرز اور انڈس واٹر کمیشن‘ پاکستان کا کیس تیار کرنے والے ہمارے بہت سے وزرائے اعلیٰ کی طرح اونگھتے رہتے ہیں۔ کیا انہیں پتہ نہیں کہ یہ وہ پاکستان ہے جس کی فی کس آبی دستیابی اس وقت صرف950 کیوبک میٹر رہ چکی ہے‘ جبکہ 1951ء میں یہ 5500 کیوبک میٹر تھی۔ قوم کو فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اسے ایسی کسی سیاسی یا عسکری قیادت کی ضرورت نہیں جو کالا باغ ڈیم کے سلسلے میں سیاسی مصلحتوں کی شکار ہو۔ بگلیہار ڈیم پر پاکستانی موقف کے خلاف فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے اپنے کیس کو دل اور ذہن کی گہرائیوں سے تیار کرنا ہو گا اور اس کے لیے کسی بھی قسم کی غفلت ملک دشمنی ہو گی!!