"MABC" (space) message & send to 7575

صحرائی ٹائیگر

رحمت العالمین محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺکے سچے اور پرکھے ہوئے عاشقان کی فہرست میں ایک نام ایسا بھی ہے جس کا ذکر بہت ہی کم کیا جاتا ہے بلکہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اب تک کسی نے یہ نام شاید سنا ہی نہ ہو اور وہ نام ہے سلطنتِ عثمانیہ کے جنرل فخرالدین پاشا کا‘ جو 17 جولائی 1916ء سے1919ء تک مدینہ منورہ کے گورنراور فوج کے کمانڈر تعینات رہے ۔فخری پاشا کے نام سے مشہور اس جرنیل نے برطانوی اور شریف مکہ کی فوجوں کو اس طرح ناکوں چنے چبوائے کہ وہ سر ٹکرا ٹکرا کر رہ گئے لیکن مدینہ کے قریب بھی نہ پھٹک سکے۔ اپنی پے در پے نا کامیوں اور فخری پاشا کی جنگی مہارت کی وجہ سے انگریزی فوج اسے '' صحرائی ٹائیگر ‘‘ کہنے پر مجبور ہو گئی ۔ جب وزیر اعظم میاں نواز شریف چند ہفتے پہلے لندن میں ANZEC DAY پر اپنے کوٹ پر سرخ پھول اور ہاتھوں میں سرخ پھولوں کا گلدستہ اٹھائے برطانوی وزیر اعظم کے ساتھ گیلی پولی کے محاذ پر آسٹریلیا، برطانیہ ، کینیڈا، جنوبی افریقہ ا ور نیوزی لینڈ کے فوجیوں کی یاد گار پر پھول چڑھانے کیلئے با ادب کھڑے ہو ئے تھے تو شاید وزارت خارجہ میں سے کسی نے انہیں یہ بتا نا منا سب نہیں سمجھا کہ جناب جن کی یاد گار پر آپ یہ گلدستہ لئے کھڑے ہیں انہوں نے گیلی پولی کی جنگ میں 86000 ترک مسلمان فوجیوں اور شہریوں کو شہید کیا تھا۔ اس جنگ میں چونکہ ہندوستان کی افواج بھی شامل تھیں اس لئے ان کی نمائندگی کیلئے پاکستان اور ہندوستان سے میاں نواز شریف اور نریندر مودی کو بلایا گیا تھا لیکن بھارتی وزیراعظم نے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ پہلی جنگِ عظیم میں جب جرمنی کی اتحادی بنی تو انگریزحکومت نے شریف مکہ کو‘جسے برطانیہ کی مکمل تائید اور مدد حاصل تھی‘ سلطنتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کا ٹاسک دیا ۔دس جون1916ء کو جب پہلی جنگ عظیم کو شروع ہوئے ابھی ڈیڑھ سال ہی گذرا تھا شریف مکہ نے برطانیہ کے کہنے پر اپنے محل سے عثمانی فوج کے خلاف بغاوت کا آغاز کرتے ہوئے مکہ میں ان کی فوجی کمانڈ کو 2500 الفاظ پر مشتمل خط لکھ بھیجا تھا کہ وہ مکہ اور دوسرے عرب ممالک کی سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں اور یہ اچانک نہیں تھا بلکہ 1900ء سے ہی انگریز حکومت اس منصوبے پر کام شروع کر چکی تھی اور اس سلسلے میں ینگ عرب سوسائٹی کے نام سے عرب نوجوانوں میں اچانک متحرک ہونے والی تنظیم قائم کی تھی‘ جس کی بنیاد فرانس میں زیر تعلیم طلبا کے ایک گروپ نے چودہ نومبر1909ء میں رکھی تھی‘ جس کے منشور کا پہلا ہدف عثمانیوں سے عرب ریاستوں کو واپس لینا تھا۔ جنگ عظیم اول کے دوران کرنل لارنس آف عریبیا اور عربوں پر مشتمل فورسز نے جب مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تو فخری پاشا کی فوجوں نے نہ صرف مقدس شہر مدینہ کا بھر پور دفاع کیا بلکہ ساتھ ساتھ چھوٹی سی سنگل ٹریک والی حجاز ریلوے پر انگریزی فوجوں کے قبضہ کی ان تمام کوششوں کو بھی نا کام بنا یا جو اس کی سپلائی کا واحد ذریعہ تھی۔ انگریز فوج کے ریکارڈ کے مطابق فخری پاشا نے ریلوے ٹریک پر قبضے اور ٹریک کو دھماکوں سے اڑانے کیلئے کرنل لارنس کی فوجوں کی جانب سے کئے جانے والے 1917ء میں130 ،1918ء میں103 اورتیس اپریل1918ء تک تین سو سے زائد بم حملے ناکام بنائے‘ جس کی وجہ سے کرنل لارنس( لارنس آف عریبیا) اور اس کی فوجیں اسے صحرائی ٹائیگر کے نام سے پکارنے لگیں اور اس طرح فخری پاشا'' ٹائیگر آف دی ڈیزرٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔
تیس اکتوبر1918ء کو سلطنتِ عثمانیہ جنگِ عظیم اول سے دست بردار ہو گئی تو خیال تھا کہ فخری پاشا کرنل لارنس کے آگے ہتھیار رکھتے ہوئے مدینہ منورہ کا قبضہ ختم کر دے گا لیکن اس نے قبضہ ختم کرنا تو ایک طرف اس معاہدے کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور مسجد نبوی میں نماز جمعہ کے دوران منبرِ رسولؐ کے پاس کھڑے ہو کر روضہ رسول اﷲﷺ کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا: ''یا رسول اﷲﷺ! فخری پاشا ہمیشہ آپ کے در کا نگہبان رہے گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اپنی افواج کے افسروں اور جوانوں کی جانب مڑا اور بولا: ''میری آپ سب سے درخواست ہے کہ اپنے نبی پاکؐ
کے مقدس شہر مدینہ منورہ کی اپنی آخری گولی اور آخری سانس تک حفاظت کرتے رہنا اور دیکھنا دشمن کی فوج کی طاقت اور تعداد سے ڈر نہ جانا۔۔۔۔ ترک فوج کا ہر جوان اور افسر‘ جو یہاں موجود ہے‘ اسے آج میرے پاس منبرِ رسولؐ پر آ کر اس بات کا عہد کرنا ہو گا کہ انگریزی فوجوں کے قدم مدینہ کی حدود کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیں گے اور اس کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بخدا مجھے رسول اﷲﷺ نے خواب میں زیا رت دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ کبھی بھی ہتھیار مت ڈالنا‘‘۔۔۔
اگست1918ء میںجب کرنل لارنس اورشریفِ مکہ نے فخری پاشا کو ہتھیار ڈالنے کا ایک بار پھر حکم بھیجا تو اس عاشقِ رسول نے جواب میں شریفِ مکہ کو لکھا: ''فخری پاشا غلامِ رسول اور محافظِ شہرِ مقدس‘ مدینہ کی طرف سے‘ قادرِ مطلق اﷲ کے نام سے‘ اس شریف مکہ کے نام جو انگریز سلطنت کی غلامی کرتے ہوئے اور مسلم ا تحاد کو پارہ پارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے ہاتھوں سے مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے۔ میں واضح اور صاف صاف الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب دوبارہ مجھ سے ہتھیار ڈالنے کی بات کبھی مت کرنا کیونکہ میری فوج کا سپریم کمانڈر اب کوئی اور نہیں بلکہ رسول اﷲﷺ خود ہیں۔ جمعرات کی رات ذی الحج کی چودہ تاریخ کو میں نے سوتے میں خود کو مدینہ منورہ کی حفاظت کیلئے پریشان ادھر ادھر پھرتا ہوا دیکھا۔ اس دوران
پھرتے پھرتے میں نے مدینہ کے ایک چھوٹے سے میدان میںاجنبی سے لوگوں کو کچھ کھودتے ہوئے دیکھا۔ اچانک میری نظر ایک با وقار شخص پر پڑتی ہے‘ وہ مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنے ساتھ آنے کو کہتے ہیں۔ ابھی میں ان کے ساتھ تین چار قدم ہی چلتا ہوں کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے اور اسی وقت میں مسجدِ نبوی میں جا کر ان کے روضہ مبارک کے پاس اﷲ کی جانب سے اس رہنمائی کا شکر ادا کرتا ہوں‘۔۔ا س لئے کرنل لارنس اور شریفِ مکہ سن لو‘ اب میں رسول اﷲﷺ‘ جو میرے سپریم کمانڈر ہیں‘ کی پناہ میں آ چکا ہوں اور مدینہ منورہ کی حفاظت اور حرمت کیلئے ہر دم تیار ہوں‘‘۔
فخری پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے وزیر جنگ کی جانب سے بھیجے گئے اس حکم کو بھی وصول کرنے سے انکار کر دیا جس میں اسے اپنی تلوار سلطان عبد الحمید کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد ترکی اتحادی افواج سے صلح کا معاہدہ کر چکا تھا اس لئے چھٹے سلطان محمد نے فخری پاشا سے مدینہ کی گورنرشپ اور فوج کی کمان کا حکم نامہ واپس لیتے ہوئے انہیں ان کے عہدے سے برطرف کرنے کے احکامات جا ری کر دیے لیکن جنرل فخری پاشا نے ان احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور سلطنتِ عثمانیہ کا جھنڈا مدینہ میں لہرائے رکھا اور بار بار کے حملوں کے باوجود لارنس عرف لارنس آف عریبیا اور شریف مکہ کی مشترکہ فورس کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتا رہا اور جب کرنل لارنس کی فوجوں کی بجائے ترکی سے جرنیل عبد اﷲ اور علی کو اسے حراست میں لینے کیلئے مدینہ بھیجا گیاتو اس کی اپنی عثمانی فوج نے فخری پاشا کو حراست میں لے لیا!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں