"MABC" (space) message & send to 7575

نیوکلیئر اور گوادر

پاکستان کے پاس اس وقت دو انمول ہیرے ہیں۔ ایک پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اور دوسرا گوادر کی بندرگاہ۔ گزشتہ تیس سالوں سے ہزار پابندیوں اور رکاوٹوں کے با وجودہم ایٹمی قوت بن کر دنیا کے سامنے جس طرح سینہ تان کر کھڑے ہیں اسی طرح اب گوادر شاہراہ اور گوادر ڈیپ سی پورٹ جیسے انمول اور نایاب ہیروں کی حفاظت اور آبیاری کیلئے ہر ''پاکستانی‘‘ کو جان لینا چاہئے کہ اس سے غفلت اور لاپروائی ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لق و دق صحرا میں اکیلا بے یار و مددگار بھٹکنے پر مجبور کر دے گی۔ اگر ان دو نایاب ہیروں کو اپنی جان سے بھی زیا دہ عزیز سمجھتے ہوئے ہم نے ان کی حفاظت کی تو یقین کیجئے پاکستان کو دنیا میںکسی کی بھی محتاجی نہیں رہے گی۔ مارچ2002ء میں جنرل مشرف کے دور میں چین کی مدد سے یہ منصوبہ شروع کرنے کیلئے اس وقت کے چین کے نائب وزیر اعظم Wu bangguo کی پاکستان آمد پر گوادر میں اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس وقت کی بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈ مرل سریش مہتا نے 2006ء میں نئی دہلی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے کہا '' پاکستان کی گوادر بندر گاہ بھارت کیلئے سنجیدہ نوعیت کی سٹریٹیجک پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے اور یہ بات ہر بھارتی کو اپنے ذہن میں رکھنا ہو گی کہ پاکستان کی یہ نئی بندر گاہ آبنائے ہر مز کی خارجی گذر گاہ سے صرف180 ناٹیکل میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگر یہ بندرگاہ کام شروع کرتی ہے تو ایسی صورت میں پاکستان توانائی کی عالمی شہ رگ کا کنٹرول سنبھال کر بھارتی آئل ٹینکروں کیلئے رکا وٹ کا سبب بن سکتا ہے اور چین‘ جو یہ بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے‘ بحر ہند میں اپنی توانائی کی آبی گزر گاہ کو محفوظ بنانے کیلئے اس کی راہ میں اپنے اڈوں کا قیام چاہے گا اور یہ گذر گاہ شمال کی جانب سے گوادر کی مستقبل کی گہری بند رگاہ تک آتی ہے‘‘۔ بھارتی نیوی کے ایڈمرل سریش مہتا نے مزید کہا ''جنرل مشرف گوادر سے کراچی تک بڑی سڑک کی تعمیر کا کام بھی ساتھ ہی شروع کرا چکے ہیں جسے آگے چل کر چین کی مدد سے قراقرم ہائی وے تک توسیع دینے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے جس سے چین کو بحر ہند تک رسائی حاصل ہو جائے گی اور یہ بھارت اور اس کی بحریہ کیلئے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔گوادر کی تکمیل سے مکران کی600 کلو میٹر لمبی ساحلی پٹی ارد گرد کے تمام ملکوں کیلئے انرجی کی راہداری کا کام دے گی اس کیلئے سنٹرل ایشیا سے گوادر تک خام آئل کی آسان اور متواتر سپلائی لائن کیلئے پائپ بچھانے کا کام گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے‘‘۔
اوپر تحریر کئے گئے الفاظ میرے ایک آرٹیکل '' گوادر اور بھارت‘‘ سے لئے گئے ہیں‘ جسے میں نے ایک قومی اخبار کیلئے31 جنوری2008ء کو لکھا تھا۔ گوادر پورٹ کی فوجی اور اقتصادی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ''1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت نے کراچی سمیت پاکستان کی تمام سمندری حدود کی مکمل ناکہ بندی کر کے پاکستان کو بے بس کر دیا تھا لیکن گوادر کی یہ بندرگاہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے بھارت کی رینج سے مکمل باہر ہے۔ گوادر کھلے سمندر اور خلیج ہرمز کی سیدھ میں واقع ہونے کی وجہ سے کبھی گنجان ایریا نہیں بنے گا۔ یہ واحد بندر گاہ ہو گی جس کے آسان زمینی راستے چین، ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سے منسلک ہیں۔ گوادر کو خطے کی تمام بندر گاہوں پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ دوسری تمام بندرگاہیں خلیج فارس کے مخالف سمت میں واقع ہیں اور وہ سینٹرل ایشیا اور افغانستان کیلئے کار آمد نہیں۔ اس کے علا وہ یہ سب گوادر کے مقابلے میں Congested اورWarzones میں واقع ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں جو انڈس ہائی وے تعمیر کی گئی اس سے گوادر اور چین کا براہ راست زمینی رابطہ بحال ہو جائے گا ( دعوے اور مشہوریاں میاں برادران کی جانب سے کئے جا رہے ہیں)۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں ہی چین، قازقستان، کرغیزستان اور ازبکستان کے ساتھ ریلوے اور سڑکوں کا معاہدہ ہو چکا ہے‘ اس کیلئے آج بھی وزارت خارجہ کا ریکارڈ چیک کیا جاسکتا ہے۔ چینی صوبہ سنکیانگ سے حویلیاں تک ریلوے ٹریک کے معاہدے پر جنرل مشرف نے 26 جون 2006ء کوچین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے تھے‘ جسے سابق حکومت نے روک دیا اور اب جس کا ایک نیا سنگ بنیاد میاں نواز شریف نے پچھلے دنوں حویلیاں میں رکھا۔ اسی ریلوے ٹریک اور قراقرم ہائی وے کی تعمیر روکنے کیلئے بھارت نے سوات میں اپنے زر خرید دہشت گردفضل اﷲ کے ذریعے دہشت گردی کا بازار گرم کرا دیا‘ جسے پاکستان کی افواج نے ناکام بنایا۔ مشرف دور میںگوادر پورٹ کا پہلا مرحلہ چائنا ہاربر انجینئرنگ کمپنی نے248 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا‘ جس میں سے198 ملین ڈالر چین اور50 ملین ڈالر پاکستان نے خرچ کئے۔ اس کے بعد اس بندر گاہ کو مزید14.5 میٹر گہرا کرنے کیلئے22.26 ملین ڈالر کا چینی حکومت سے علیحدہ ایک معاہدہ کر لیا گیا تھا تاکہ دنیا بھر سے بڑے سے بڑے جہاز آسانی سے یہاں لنگر انداز ہو سکیں۔
پاکستان میں اس وقت کمرشل طور پر دو بڑی بندر گاہیں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم کام کر رہی ہیں۔ کراچی پورٹ پاکستان کی انٹر نیشنل تجارت میں ساٹھ فیصد اور پورٹ قاسم چالیس فیصد پورٹ سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ ان کا ایشیا کی دوسری بند رگاہوں سے مقابلہ کریں تو کراچی پورٹ ممبئی پورٹ سے ڈیڑھ گنا مہنگی، سری لنکا کی کولمبو پورٹ سے ساڑھے چار گنا زیا دہ مہنگی، دوبئی پورٹ سے 19گنا مہنگی اور ایران کی چاہ بہار اور بندر عباس پورٹ سے 6 گنا زیا دہ مہنگی ہے لیکن گوادر پورٹ پوری طرح مکمل ہونے کے بعد دنیا کی سب سے سستی بند رگاہ کا درجہ اختیار کر لے گی۔اور دنیا کی تمام جہاز راں اور کارگو کمپنیاں اس خطے اور اس کے ارد گرد سمندروں میں واقع دوسرے ممالک کی بندر گاہوں کی نسبت گوادر کو ترجیح دیں
گی۔کوئی بھی بحری جہاز گوادر کی بجائے دوبئی یا خلیج کی کسی بھی دوسری بند رگاہ سے روانہ ہوتا ہے تو اسے یک طرفہ سفر کیلئے گوادر سے تیس گھنٹے زائد وقت کے علا وہ بیس ہزار ٹن کے جہاز کیلئے ایک لاکھ ڈالر سے بھی زائد خرچ کرنے پڑتے ہیں‘ لیکن وہی جہاز اگر گوادر پورٹ استعمال کرتا ہے تو اسے تیس گھنٹوں کے دو لاکھ ڈالر بچت کے علا وہ انشورنس اور سکیورٹی رسک کیلئے کم ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔
ہمارا ازلی دشمن بھارت اور اسرائیل اپنے نمک خوار پرانے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کی ترقی کے خلاف دیوار بنانے میں دن رات ایک کر رہے ہیں اور وہ گروپ جنہوں نے قومیت کے نام سے جماعتیں قائم کی ہوئی ہیںپہلے کالا باغ ڈیم کو بموں سے اڑانے کی دھمکیاں دیتے رہے اور اب پاک چین اکنامک کاریڈور کے خلاف شکوک و شبہات کو ہوا دے رہے ہیں کیونکہ ان کے گاڈ فادر بھارت نے کھل کر اعلان کر دیا ہے کہ وہ یہ شاہراہ تعمیر نہیں ہونے دے گا۔ حکومت وقت کو بھی چاہئے کہ اس شاہراہ پر اپنی سیا سی دکانداری چمکانے کی بجائے اسے ایک قومی فریضہ کے طور پر پیش کرے کیونکہ اگر آپ کسی منصوبے کو بنیاد بنا کر محب وطن جماعتوں کی کردار کشی اور ان پر فتح حاصل کرنے کیلئے پاکستان اور پنجاب کے غریب عوام کے سرمائے سے جھوٹ موٹ کے پروگرام بنائیں گے‘ تو یہ اس منصوبے اور اسے مکمل کرنے والے دوست ملک کی پاکستان کے عوام کے ساتھ بے لوث محبت کی توہین ہو گی‘ کیونکہ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کئے جانے والے جن معاہدوں کو آپ اپنا کارنامہ قرار دیتے نہیں تھکتے‘ اس معاہدے کو آپ نے نہیں بلکہ جنرل مشرف نے 2002ء میں چین سے طے کئے تھے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں