9جون کی رات موٹر سائیکل پر دو سگے بھائی شکیل بٹ اور ذیشان بٹ اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد ڈھوک علی اکبر میں واقع اپنے گھر کی جانب آ رہے تھے کہ راولپنڈی کی مصروف ترین سڑک پر محافظ فورس کے ناکے پر انہیں رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن وہ پولیس ناکے پر رکنے کی بجائے آگے بڑھ گئے جس پر دو نوں بھائیوں کوگولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔گولیاں برساتے وقت کسی کویہ خیال ہی نہ آیا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ناکہ پر کھڑے ہوئے انچارج پولیس افسر کی اجا زت کے بغیراس نے ان مو ٹرسائیکل سواروں پر سیدھی فائرنگ کی ہو، یہ شائد اس لیے ہوا کہ پولیس سروس میں آتے ہی اس کی سیاہ ٹی شرٹ پر لکھ دیا گیا تھا کہ No Fear ۔ اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو کچھ عرصہ قبل لاہور کی وحدت روڈ پر بھی سلمان نامی موٹر سائیکل سوار نو جوان اسی طرح پولیس کی گولیوں کا نشانہ بناتھا ۔ کیا خادم اعلیٰ بتائیں گے کہ اس قتل کا کیا بنا؟ کہا جاتا ہے کہ کوئی اندھا شخص پولیس میں بھرتی ہونے کیلئے بنی ہوئی قطار میں کھڑا ہو گیا جب اس کی باری آئی تو بھرتی کرنے والے افسر نے کہا کہ تم تو اندھے ہو تم پولیس میں کیا کرو گے تو وہ شخص بو لا کہ پولیس میں بھرتی ہو کر میں اندھا دھند فائرنگ کیا کروں گا!! یہ تو خیر ایک لطیفہ ہے لیکن سوال ہے کہ شکیل بٹ اورذیشان بٹ کا قتل کیوں ہوا؟۔ شکیل بٹ اور ذیشان بٹ جیسے بہت سے دوسرے لڑکوں کے قتل کی اصل وجوہ کسی نے بھی جاننے کی کوشش نہیںکی۔ نہ والدین نے اور نہ ہی ارباب اختیار نے۔ نوجوانوںکو ان کے والدین کیوں نہیں بتاتے کہ موٹر سائیکل پر تین سواریاں بٹھا نا جرم ہے، موٹر سائیکل بغیر لائسنس چلانا جرم ہے، تیز رفتاری جرم ہے، ون ویلنگ کرنا جرم ہے ۔ جب بھی پولیس ناکے لگتے ہیں تو شامت صرف موٹر سائیکل سواروں کی ہی آتی ہے اور ان ناکوں کی زیا دہ تعداد گلیوں‘ چوکوں یا بازاروں میں ہو تی ہے۔ یہ نوجوان سودا سلف لینے یا کسی دوست کو ملنے کیلئے موٹر سائیکل پر گھروں سے نکلتے ہیں اور یہ اپنے ساتھ کاغذات لے کر نہیں جاتے اور اکثر کے پاس لائسنس بھی نہیں ہوتے کیونکہ ہمارے ملک میں لائسنس کا حصول بھی ایک تما شا بنا ہو اہے جنہیں لائسنس ملنا چاہیے وہ دن رات دفتروں کے با ہر قطا روں میں کھڑے رہتے ہیں اور جنہیں لائسنس نہیں ملنا چاہیے انہیں گھر بیٹھے لائسنس مل جا تے ہیں ۔ دیکھا جائے تو پولیس ناکوں پر نوجوانوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہم سب ہیں اور اس کا سبب ہمارا معاشرہ ہے جس میں کسی کو بغیر لائسنس گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کا ''خوف ‘‘ نہیں۔ پولیس کو بغیر تحقیق چاند ماری کرنے کا ''خوف ‘‘نہیں۔ والدین کو یہ خوف نہیں کہ رات گئے میری اولاد کہاں پھر رہی ہے ۔ جو بیٹا موٹر سائیکل یا گاڑی چلارہا ہے اس کے پاس لائسنس بھی ہے یا نہیں ۔وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کی اولاد اس وقت کہاں ہے۔ گھر سے کتنی دیر سے غائب ہے کیونکہ سب ''بے خوف ‘‘ہیں۔ میری نظر میں جب تک والدین اور دیگر گھر والے اپنی آنکھیں بند رکھیں گے، اپنی اولاد کے مستقبل سے اسی طرح بے خوف رہیں گے تب تک ملک کی سڑکوں اور چوراہوں پر ان کے بچے حادثوں کا شکار ہو تے رہیں گے۔ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار کی شام کو موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوان ون ویلنگ کرتے ہیں ۔اس وقت تک ون ویلنگ کرتے ہوئے حادثہ کا شکار ہونے والوں کی
تعداد 56 اور زخمیوں کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے ان میں سے کتنے ہی زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو چکے ہیں ۔ لاہور جہاں جگہ جگہ پولیس ناکے دیکھنے میں آتے ہیں وہاں پندرہ جون کو صرف ایک دن میں میرے جاننے والے چھ لوگ راہزنوں اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں دن دہاڑے لٹ گئے ۔ان میں سے ہماری جاننے والی ایک خاتون کو گلشن راوی پولیس اسٹیشن سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر واقع گھر کے دروازے پر موٹر سائیکل سوار دو مسلح ڈاکوئوں نے سات لاکھ روپے سے محروم کر دیا۔ اسی طرح پانچ لوگ ساندہ اور لیاقت آباد میں لٹ گئے۔ اس پر مجھے ایک بہت ہی سینئر پروفیسر‘معروف کالم نگار اور مصنف عطاالحق قاسمی کا ایک کالم یاد آ گیا جس میں وہ خادم اعلیٰ سے گذارش کرتے ہیں کہ ان کے سمیت اب تک لکھنے والے تقریبا دس ادیب اور شاعر صرف چند دنوں میں آپ کے لاہور شہر میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں۔ قاسمی صاحب نے لکھا کہ سوائے ان کے باقی درویشوں کی کمائی لٹنے پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سلطان شہر سے کوئی بہت ہی سخت قسم کی بھول ہو گئی ہے ۔
دوسری طرف لوگوں میں نچلی عدالتوں میں اب پہلے جیسا خوف نہیں رہا۔ سیاسی لوگوں کی رائے میں اس کی وجوہ اور ہو سکتی ہیں لیکن میری نظر میں خوف اور احترام اس لئے نہیں رہا کہ لوگ روزانہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ آج فلاں وکیل اور جج کے درمیان جھگڑا ہوگیا اور ساتھ ہی نجی ٹی وی چینل اور اخبارات میں ایسے و اقعا ت کی تشہیر ہونے سے اداروں کا رعب اور وقار کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو کھا رہا ہے۔ بھائی بھائی پر ظلم کر رہا ہے۔ حکمران عوام پر ظلم کر رہے ہیں اور عوام ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں۔ سب ایک دوسرے کا حق کھا رہے ہیں‘ کہیں قبضے کیے جا رہے ہیں تو کہیں گھر گرائے جا رہے ہیں۔ اولاد کو بھی یہی بتا یا جا تا ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے وہی تمہا را رشتہ دار ہے۔ غریب کو رشتہ دار تو ایک طرف‘ انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔ سب کا دین پیسہ ایمان پیسہ ہو گیا ہے۔ جو بجلی چوری کرے ۔سارا دن ایئر کنڈیشنرا ستعمال کرے ۔اس کا ماہانہ بل دو ہزار اور جو چند گھنٹے اے سی استعما ل کرے اسے بیس ہزار کا بل اورجو آنکھیں نکالتا ہوا ٹریفک کی خلاف ورزی کرے اسے سلام اور جو ڈر ڈر کر ان سڑکوں پر پھرے اس کے روزانہ چا لان... کیا یہ ملک اسی لیے بنا تھا؟!!