سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کو کسی نے دھکا دیا ، وہ خود ہی دام میں آ گرے یا انہیں یہاں تک کوئی لے آیا ؟ مفاہمت کی سیاست کے نام پر اپنے مفادات اور مقاصد کی تکمیل کے لیے، راستے کی ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ دور کرنے کی غرض سے انہوں نے اپنی ہر دیرینہ خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ پھر اچانک انہیں کیا ہوا کہ ایک دم افواج پاکستان پر اس طرح گرجے برسے کہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں دے ڈالیں۔ اگرکہا جائے کہ ان کی زبان پھسل گئی تھی تو اب آپ لاکھ تاویلیں پیش کرتے رہیں، آپ کی کمان سے نکلا ہوا ایک تیر نہیں بلکہ پورا ترکش مقابل کے جسم کے اندر پیوست ہو چکا ہے۔ اس کا رخ موڑنے کے لیے گڑھی خدا بخش میں آپ نے جو نئی بات کہہ ڈالی، وہ وطن کی سالمیت اور یک جہتی کے لیے پہلے سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔ اگر کوئی نہیں سمجھ سکا تو سمجھ جائے کہ اسلام آباد میں چلائے گئے تیروں کے مقابلے میں گڑھی خدا بخش میں چلائے جانے والے تیر زیادہ زہر میں بجھے ہوئے تھے۔
آصف علی زرداری کا بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قبر پر کھڑے ہو کر یہ الزام لگانا کہ ''ہم پر بے نظیر بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر واپس لینے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے‘‘ اس قدر مہلک وار ہے جس کی گہرائی کا سب سے زیا دہ اندازہ خود زرداری صاحب کو ہے۔ یہ ان کا سندھ کارڈ کھیلنے کا آخری حربہ ہے جس سے وہ سندھ کے عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف جو کارروائیاں کی جا رہی ہیں یا آگے چل کر جو کچھ بھی کیا جائے گا اس کی وجہ لوٹ مار نہیں، کرپشن نہیں، تھر میں چار سو سے زائد بچوں کی بھوک پیاس کے ہاتھوں ہلاکت نہیں ، کراچی میں ایک ہزار سے زائد افراد کی گرمی اور لو لگنے کے بعد طبی سہولتیں نہ ملنے سے ہونے والی ہلاکتیں نہیں، پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہوئے کراچی کی دوکروڑ آبادی کا سڑکوں پر آنا نہیں اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے سندھ کے شہروں، گوٹھوں کے چھوٹے چھوٹے گھروں اور کراچی کے بند فلیٹوں سے گھبرا کر لوگوں کا سڑکوں پر آ کر جگہ جگہ موت کے منہ میں گرنا نہیں بلکہ سندھ کی بیٹی کے قتل کی ایف آئی آر واپس نہ لینا ہے؟
سوال یہ ہے کہ کراچی میں گزشتہ ایک ہفتے میں جو کچھ پیش آ چکا ہے کیا اس پر پیپلزپارٹی نے کوئی ذمہ داری لی۔ جس طرح اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا جا رہا تھا ‘اتنے جوش و جذبے سے یہ جماعت متاثرہ افراد اور خاندانوں کی مدد کو کیوں نہ آگے آئی۔ کیوں زرداری صاحب ٹی وی پر دوبارہ نہیں آئے اور کیوں انہوں نے اپنے ورکروں اور اداروں سے یہ درخواست نہیں کی کہ وہ گرمی سے متاثر ہونے والوں کی ہر ممکن مدد کریں۔ اداروں پر تنقید کرنا بہت آسان کام ہے لیکن مثبت انداز میں کام کرنا بہت مشکل ۔ پیپلزپارٹی سندھ سے ہمیشہ محبت بھی سمیٹتی رہی ہے اور ووٹ بھی۔ لیکن آج اس کے عوام کا یہ حال ہے کہ یہ گرمی سے سڑکوں پر کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے پھر رہے ہیں‘ انہیں دو بوند پانی بھی دستیاب نہیں‘ لوڈشیڈنگ نے ان کا جینا عذاب کر رکھا ہے اور ان کے حکمران ہیں کہ ان کا خیال کرنے کی بجائے اداروں کو نشانہ بنانے پر تلے ہیں۔ اس سے قبل بھارت میں بھی ایسی ہی گرمی آئی تھی اور دو تین ہزارافراد ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس وقت اگر ہمارے لیڈر یہ خیال کر لیتے کہ اگر ہمسایہ ممالک میں یہ سانحہ ہو سکتا ہے تو کل کلاں ہمارے ہاں بھی یہ پیش آ سکتا ہے۔ تب ہی اس کی پیش بندی کی جا سکتی تھی۔ اصل حکمران تو ہوتے ہی وہی ہیں جو مستقبل کی پلاننگ کریں۔ ہمارے ہاں تو حساب یہ ہے کہ طوفان اور بحران آ جاتا ہے لیکن پھر بھی عقل ٹھکانے پر نہیں آتی۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو طعنے دینے میں لگا ہے۔ اگر فوج ہیٹ سٹروک کیمپ نہ لگاتی تو سینکڑوں مزید لوگوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ یہ کام سول حکومتوں کے کرنے کے ہیں لیکن یہ بھی فوج کر رہی ہے۔ اوپرسے نشانہ بھی یہ فوج کو بناتے ہیں۔ حالانکہ اسی کراچی اور اسی سندھ میں ان کی اپنی حکومت ہے اور یہ عیش و عشرت بھی اسی اقتدار سے حاصل کر رہے ہیں لیکن بدلے میں عوام کو کچھ نہیں دے رہے۔ آج حالت یہ ہو چکی کہ لوگ مر رہے ہیں لیکن انہیں دفن ہونے کو جگہ نصیب نہیں۔ کیا اسے منصوبہ بندی اور حکمرانی کہتے ہیں کہ جس میں عوام کی حالت یہ ہو جائے کہ انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کرنا پڑے اور کوئی وزیر ان کی نماز جنازہ میں شامل نہ ہو۔
کیا زرداری صاحب کو یاد ہے کہ وہ ایف آئی آر اس وقت کی حکومت نے ایک سب انسپکٹر پولیس کی وساطت سے درج کرائی اور دوسری ایف آئی آر کے لیے بی بی کے پروٹوکول افسر چودھری
اسلم نے لوئر کورٹ سے سپریم کورٹ تک رجوع کیا اور ان کی یہ ایف آئی آر درج کرنے کی رٹ اس و قت بھی سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ چودھری اسلم وہ ہیں جن کو آپ پہچاننے سے ہی انکاری ہیں، شاید اس لیے کہ اس ایف آئی آر کی درخواست میں آپ کے معتمد خاص کا نام سب سے پہلے نمبر پر ہے؟ لیکن اب آپ سندھ کے سادہ عوام کو، اپنے ہر دور میں زندگی کی سہولتوں سے محروم رکھے گئے ہاریوں کو کس طرح بیوقوف بنا سکیں گے ۔
آصف علی زرداری جیسے بڑے پائے کے لیڈر کا یہ کہنا کہ اصل میں میرا مخاطب وہ نہیں کوئی اورتھا، ان کی زبان سے اچھا نہیں لگتا جبکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں تو ریٹائر ہوئے سات سال سے زیا دہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ تین سال نہیں بلکہ دس سال اقتدار میں رہا جبکہ آپ نے تو تین سال کا ذکر کیا تھا۔ ہاں، اگر آپ نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہی تھا تو یہ کہہ دیتے کہ اس کی طرف دیکھو جو پھنسا ہوا ہے، اسی طرح تم نے بھی تین سال بعد چلے جانا ہے، جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہے اسے ذہن میں رکھ لو۔ جناب والا ! آپ کو یاد ہو گا کہ آپ نے اسی گڑھی خدا بخش میں فوجی جرنیلوں کو '' بلے‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ '' بلے جنہیں دودھ چٹ کر جانے کی عادت ہے، ان میں سے ایک بلا اس وقت قابو آیا ہوا ہے، وہ بھاگنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے، اسے جانے نہ دینا‘‘۔ اسی طرح آپ نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر جی ایچ کیو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو تم نے تین سال کے لیے رہنا ہے اور ہم نے
ساری عمر رہنا ہے اور ہمارے بعد ہماری اولادوں اور ان کے بعد ان کی اولا دوں نے۔ محترم آصف علی زرداری اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کا مخاطب کون تھا؟ جس جس نے بھی آپ کو بولتے اورگرجتے ٹی وی سکرین پر ایک بار نہیں بار بار سنا وہ سب جانتے ہیں کہ آپ کا مخاطب کون ہے اور جن کو آپ نے تین بار ہوشیار، ہوشیار، ہوشیار کرتے ہوئے مخاطب کیا وہ بھی جانتے ہیں ، تو پھر اب شیر بنیں اور اگر شیر نہیں بن سکتے تو بھٹو ہی بن جائیں؟
اگر چند دن پہلے کی بات کو آپ بھول چکے ہیں یا بھلانے کی کوشش کر رہے ہیں تو یاد کرائے دیتے ہیں کہ اسلام آباد میں فاٹا کے، پارٹی کے فیکٹری ورکر وں کی یونین سے حلف لیتے ہوئے آپ کے مشہور زمانہ تہلکہ مچا دینے والے ارشادات کے بعد آپ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں متفقہ طور پر قرار داد منظور کرتے ہوئے پاکستانی میڈیا سمیت دنیا بھر کو بتایا گیا کہ '' ہم اپنے چیئر مین کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ پر قائم ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں جو کچھ بھی کہا ہم اس میں کسی بھی قسم کا رد و بدل کرنے کے حق میں نہیں اور نہ ہی اس بیان کو واپس لینے کی حمایت کرتے ہیں اور پوری پاکستان پیپلز پارٹی جناب آصف علی زرداری کے کہے ہوئے ہر لفظ کی تائید و حمایت کرتی ہے ‘‘۔ پھر اچانک کیا ہوا کہ اب آپ فرمانا شروع ہو گئے ہیں کہ میں نے 59 سال والے کو نہیں بلکہ70 سال کے بوڑھے کو للکارا تھا۔کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے بندے کو نہ جانے کتنے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے چاہے اسلام آباد میں بولا جائے یا گڑھی خدا بخش میں...آپ یہ معلوم کریں کہ آپ کو کسی نے دھکا دیا ہے یاخود ہی اپنے دام میں صیاد آ گیاہے!