جیسے ہی گرمی نے زور پکڑا پورا ملک بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے اندھیروں میں بھٹکنا اور شدید گرمی میں جلنا شروع ہو گیا۔ صرف کراچی شہر میں محکمہ صحت اور ہسپتال ذرائع کے مطا بق پچھلے دو ہفتوں میں گرمی کی حدت اور شدت سے دم توڑنے والے افراد کی کل تعداد 1300 سے تجاوز کر چکی ہے۔ اکیس جون کے طویل دن کے اختتام پر افطاری سے بھی تین گھنٹے بعد تک مشتعل افراد لوڈ شیڈنگ کے خلاف سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرنے میں مصروف اور پولیس کا لاٹھی چارج سہنے پر مجبور تھے۔ یہی حال پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے کا تھا‘ لیکن وہ تو رب العالمین کی رحمت ہے جو اس ماہ رمضان میں اپنے بندوں کی حالت زار دیکھ کر جوش میں آگئی اور کراچی اور تھر جیسے علاقوں سمیت ملک بھر میں تیز ہوائوں کے ساتھ باران رحمت اس طرح برسنا شروع ہوگئی کہ انسانوں کے چہرے پھر سے کھل اٹھے‘ ورنہ حکمرانوں نے تو اپنی طرف سے ان انسان نما ووٹروں کی زندگیاں جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھی ۔کراچی میں پانی اور لود شیڈنگ کے ذریعے جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بعد بھی کراچی والوں کا اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں سے کیا یہ پوچھنے کا حق نہیں بنتا!! کہ مئی2014ء میں لاہور کی میٹرو ٹرین کیلئے 1.27 بلین ڈالر کا چین سے آپ نے معاہدہ کیا جس کیلئے رقم مختص اور زمین الاٹ کی جا چکی ہے اور اس کی فزیبلٹی بھی تیار ہو گئی ہے‘ لیکن جناب والا اس میٹرو ٹرین کے منصوبے سے بھی پہلے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کراچی میں نیوکلیئر پاور پروجیکٹ لگانے کیلئے دسمبر2013ء میں6.5 بلین ڈالر کا جو معاہدہ کیا گیا تھا اس کا اب تک کیا بنا؟ جب کراچی کے عوام دن رات شہر قائد کی سڑکوں پر لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے تو اس وقت پانی اور بجلی کے بڑے اور چھوٹے وزرائے کرام خواجہ آصف اور عابد شیر علی فرما رہے تھے کہ ہم کیا کریں ہم تو اپنا پیٹ کاٹ کر کراچی الیکٹرک کو650 میگا واٹ بجلی فراہم کر رہے ہیں اس سے زیا دہ اور کیا کریں؟
اگر کراچی کیلئے دو سال قبل دستخط کئے گئے معاہدے پر عمل در آمد کا آغاز کر دیا جاتا تو اس سے ایک تو اس منصوبے کی تکمیل کے بعد آپ کو کراچی کو بھیک میں دی جانے والی اس650 میگاواٹ بجلی کی بچت ہوتی اور ساتھ ہی کراچی کے اس پاور پروجیکٹ کو نیشنل گرڈ سے منسلک کر نے سے کراچی سمیت پورے سندھ میں بجلی کی ہولناک قلت پر قابو پالیا جاتا۔۔۔۔لیکن افسوس کہ پنجاب کے ووٹ کھرے کر نے کیلئے میٹرو ٹرین کو کراچی کے نیوکلیئر پاور پروجیکٹ پر ترجیح دی گئی۔آج بھی اگر گرمی کے ہاتھوں ستائے عوام کی چیخوں سے اسلام آباد کے حکمرانوں کے ذہن میں پنجاب کے ووٹروں کی بجائے ملک بھر کی روشنی کا خیال آجائے تو وہ لاہور کی میٹرو ٹرین پر کام کا آغاز بعد میں کریں‘ پہلے دس ہزار میگاواٹ کے اس منصوبے پر کام کا اسی طرح آغاز کرایا جائے جیسے میٹر و بس اور لاہور کی سڑکوںکی تعمیر کیلئے کرایا جاتا ہے۔ اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ خوشنمائی اور میک اپ اچھی بات ہے لیکن یہ اس وقت اچھی لگتی ہیں جب روشنی میں کوئی اسے دیکھنے والا بھی ہو۔ اس لیے بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلہ کریں کہ پاکستان کو لاہور کی میٹر ٹرین کی پہلے ضرورت ہے یا کراچی اور ملک بھر کے عوام اور صنعتوں کو بجلی کی زیا دہ ضرورت ہے؟ آپ بغیر کسی شک و شبہ کے یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ اس ملک کے عوام کو ترقی و شادمانی چند منٹوں کے میٹرو ٹرین کے سفر سے حاصل نہیں ہو گی۔ اگر یہ عوام کسی میٹرو بس یا میٹرو ٹرین میں چند منٹ کیلئے سفرکرتے ہوئے ایئر کنڈیشنز سے لطف اندوز ہو بھی جائیں گے‘ تو اپنے گھروں اور دکانوں میں تو انہوں نے سارا دن اور رات گرمی کی حدت میں ہی گزارنے ہیں اور اگر میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کی شان میں قصیدے پڑھنے والوں کے گھروں میں بجلی نہ ہو گی اور وہ ہر ایک گھنٹے بعد ہونے والی لوڈ شیڈنگ اور چھ چھ گھنٹوں کی لوڈ مینجمنٹ سے اپنے پورے خاندان سمیت تڑپ تڑپ کر زندگیاں گذاریں گے تو اس کا حکمرانوں کو کتنا ثواب ملے گا اور قصیدہ گوئی کرنے والوں کو کتنی راحت اور کتنا سکون حاصل ہو گا اس کا اندازہ
حکمرانوں نے چند لمحوں کیلئے مینار پاکستان کے باہر زرداری حکومت کے خلاف بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران ہاتھ والا پنکھا لہراتے ہوئے کر ہی لیا ہوگا۔ پاکستان بھر کی تحصیلوں، قصبوں اور دیہات میں کروڑوں لوگ اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے‘ چھوٹے موٹے کاموں کیلئے بجلی کو ترستے رہتے ہیں۔ حکمرانوں کو اگر ترقی کا شوق ہے اور آپ اپنے ملک کو دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے انرجی میں خود کفالت سب سے ضروری ہے۔ اگر حکمرانوں کے سامنے دوبئی کی میٹرو ٹرین کی مثال ہے‘ تو یہ بھی تو دیکھیں کہ وہاں ایک منٹ کیلئے بھی بجلی کے چلے جانے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ غالباً حکمرانوں کے ذہن میں1992ء سے ہی یہ بات راسخ آ چکی ہے کہ جب لاہور کی جیل روڈ پر انڈر پاس بنوایا گیا اور چوبرجی چوک کو کشادہ کرایا گیا تھا تو آپ کی مقبولیت کی وجہ صرف یہی دو پروجیکٹ تھے اور انہی دو پروجیکٹس نے لاہور اور اس کے ارد گرد اور پنجاب بھر سے یہاں آنے والے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا ڈالا تھا... نہیں جناب! ایسا نہیں تھا۔ اس وقت آپ کا مقابلہ آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی سے تھا اور ان کا ماضی حال اور کمال سب کے سامنے تھاجس کی وجہ سے صرف آپ کو ہی ملک کا نجات دہندہ سمجھ لیا گیا اور دوسرا آپ کو فائدہ یہ ہوا کہ جگہ جگہ بیٹھا ہوا بھٹو کی
پیپلز پارٹی کا مخالف طبقہ آپ کی مدد کو پہنچ گیا جس سے آپ کو کامیابیاں ملنا شروع ہو گئیں۔
لاہور اور راولپنڈی کی میٹرو بس کیلئے اس ملک کا 100 ارب سے بھی زیا دہ روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے اور اب ملتان میں بھی بیس ارب خرچ کرنے کا قصد ہے۔ جہاں لوگ ہر وقت لوڈ شیڈنگ کے خلاف ماتم کرتے ہیں۔ تین چار سال قبل جب اسلام آباد میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی‘ تو ملتان میں میپکو کے دفتر اور گوجرانوالہ میں گیپکو کے دفاتر کو لوڈ شیڈنگ اور گرمی سے تباہ حال لوگوں کے ہاتھوں کس نے اور کیوں آگ لگوائی تھی؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جب آپ جانتے ہیں اور سب سے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ انرجی کا حصول ہے تو پھر آپ کی پہلی ترجیح پانی اور بجلی کے منصوبے ہونے چاہئیں تھے‘ نہ کہ میٹرو بسیں اور میٹرو ٹرینیں۔ شاید اسی حوالے سے ہی پنجابی میں کہاوت ہے کہ''پلے نئیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ‘‘ کیا سب سے بہتر یہ نہیں کہ پہلے کاشغر سے گوادر بندرگاہ تک کے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں بچھانے کے منصوبوں کو مکمل کرایا جائے جس سے تیل اور گیس کی اس ملک میں فراوانی ہو جائے؟ جس سے ہمارے بجلی پیدا کرنے والے پاور ہائوسز بھی کام کریںاور گیس سے ہمارے کارخانے اور چھوٹی بڑی صنعتیں، مارکیٹیں اور روزمرہ کاموں کیلئے مخصوص دکانیں اور پاور لومز دن رات کام کریں اور ساتھ ہی گیس کی فراوانی سے گھروں کے چولہے بھی جلتے رہیں۔