"MABC" (space) message & send to 7575

متقی اور پرہیز گار کہاں گئے؟

رمضان المبارک ایک تربیت گاہ ہے۔ اس میں اگر بے شعوری سے داخل ہوں گے توپھر کچھ بھی نہیں سیکھ پائیں گے۔ اس تربیت گاہ کے نصاب میں درج ہے: '' اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن سکو‘‘ ۔ قرآن پاک میں روزے کے بارے میں یہ الفاظ ہیں '' تاکہ تم پرہیز گار بن سکو‘‘ اور اس بات میں تو کسی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ جو شخص تقویٰ اور پرہیز گار ی اختیار کرتا ہے‘ اس میں جھوٹ ، لالچ ، دغا بازی، جعلسازی، حق تلفی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، غیبت اور ظلم کرنے کی عادت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اسی پر شاکر رہتا ہے جو اسے اﷲ کی جانب سے مل جاتا ہے۔ متقی اور پرہیز گار کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی برائی سے خود کو دور رکھتا ہے۔ ماہ رمضان میں کروڑوں مسلمان روزہ رکھتے ہیں لیکن کیا یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ روزے کی حالت میں ان سبھی نے تقویٰ اختیار کیے رکھا؟ گزشتہ کئی دہائیوں سے ماہ رمضان میں لاکھوں مسلمان عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے بیتاب رہتے ہیں اور اس کیلئے چھ ماہ پہلے سے ہی ٹکٹوں کی بکنگ شروع ہو جاتی ہے تاکہ روزے کی حالت میںخانہ خدا اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کی سعادت حاصل کر سکیں۔ 
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کا ذکر کیا جائے تو حج سے پہلے روزہ اور پھر روزوں سے بھی پہلے نماز اہم رکن ہے‘ جس کی پابندی کا قرآن پاک میں بار بار ذکر ہے۔ نماز اور روزہ ہر مسلمان پر سوائے چند ایک مجبوریوں کے لازمی قرار دیا گیا ہے‘ اور روزے کے بارے میں تو یہ حکم ہے کہ اگر کسی مجبوری سے روزہ نہیں رکھ سکے تو وہ روزے معاف نہیں ہوتے بلکہ رمضان کے بعد آنے والے دنوں میں قضا روزے رکھنے کا حکم ہے جبکہ حج اور عمرہ کے بارے میں خصوصی طور پر استطاعت کی شرط رکھی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خانۂ خدا اور دیار نبیؐ پر حاضر ہو نے کا شرف اسے ہی حاصل ہوتا ہے جسے اﷲ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے بلاوا آتا ہے۔ اس کی حقیقت تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن کیا ہمارے پاس اﷲ اور اس کے رسولؐ کا وہ پیغام نہیں پہنچا کہ تم پر بھی پہلے والی امتوں کی طرح روزے فرض کر دیئے گئے ہیں تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن سکو؟ 
اب اگر ہم روزے کواس کی پوری سپرٹ اپنے اوپر طاری کر تے ہوئے رکھیں یعنی ان احکامات پر مکمل عمل کریں جن کی پابندی روزے کی حالت میں لازمی قرار دی گئی ہے‘ تو کیا اس طرح ہم متقی اور پرہیزگار وں کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے؟ اگر کوئی رمضان المبارک کی عائد کی گئی پابندیوں میں سے کسی ایک کو اپنے کسی لالچ کیلئے اپنے کسی مفاد کیلئے نظر انداز کر دے تو پھر نہ تو وہ پرہیز گار بن سکے گا اور نہ ہی متقی۔ اگر ماہ رمضان کی بر کت سے احکام الٰہی کے مطابق کوئی متقی نہ بن سکا‘ تو پھر ا س کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ رمضان کی تربیت گاہ میں بے شعوری کی حالت میں داخل ہوا۔ اگر کوئی ڈاکٹر بے شعور ہے، کوئی انجینئر بے شعور ہے، کوئی صحافی بے شعور ہے، کوئی عالم بے شعور ہے، کوئی استاد بے شعور ہے، انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہوا کوئی منصف بے شعور ہے اور منصف کے سامنے انصاف کیلئے دلائل دینے والا وکیل بے شعور ہے اور انصاف مانگنے والا بے شعور ہے تو معاشرے کی وہی حالت ہوجا تی ہے جو آج پاکستان میں ہر طرف دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اکثرسوچتا ہوں کہ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اﷲ اور اس کے رسولؐ بلاتے ہوں گے۔ اب اگر تعداد کا شمار کیا جائے تو پاکستان بننے سے اب تک لگ بھگ پانچ کروڑ سے زائد لوگ حج اور عمرہ کی سعادت سے فیض یاب ہو چکے ہوں گے اور ظاہر ہے ان پانچ کروڑ پاکستانیوں کو خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں روزہ رسولؐ پر حاضری دیتے ہوئے نمازوں او ر نوافل کی ادائیگی کے ان گنت مواقع ملے ہوں گے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان پانچ کروڑ مسلمانوں نے ماہ رمضان کے دوران عمرہ کرتے ہوئے روزے بھی رکھے ہوں گے‘ کتنے خوش نصیب ہوں گے یہ لوگ جنہوں نے روضۂ نبی اور خانۂ خدا کے سامنے روزے کی حالت میں نمازوں اور نوافل کی ادائیگی کے دوران اپنے آپ کو بارگاہ الٰہی میں نہ جانے کتنی کتنی دیر سربسجود رکھا ہوگا۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان پانچ کروڑ کے قریب پاکستانیوں نے واپس وطن پہنچ کر معاشرے میں سدھار لانے کیلئے کیا خدمات انجام دیں؟ میراتو یہ ایمان و یقین ہے کہ جسے خانۂ خدا میں اور رسولؐ خدا کے روضۂ مبارک کے قریب اپنے قدم رکھنے کی اجازت ملتی ہے‘ وہ کوئی عام انسان نہیں ہو سکتا۔ وہ یقیناً اﷲ کے منتخب بندے اور اعلیٰ انسان ہوتے ہیں۔ ان سے ماضی میں کبھی کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہو بھی گئی ہو گی لیکن یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ روزے کی حالت میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد بنی نوع انسان پر ان کی جانب سے ظلم نہیں ہو سکتا... تو پھر کیا وجہ ہے کہ حج اور عمرہ کی سعادت سے فیض یاب ہونے والوں میں سے اکثر کے پڑوسی ان کے شر سے محفوظ نہیں رہتے‘ 
ان کی زبان اور اعمال سے ارد گرد کے لوگوں کو تکالیف پہنچتی رہتی ہیں؟ ان میں سے کوئی کسی سرکاری دفتر میں ہے‘ کوئی کسی تعلیمی ادارے یا شعبہ تعلیم سے منسلک ہے، کوئی تجارت کرتا ہے تو کوئی کاروبار سے جڑا ہوا ہے۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو زراعت اور صنعت سے وابستہ ہیں‘ کوئی سرکاری اہلکار ہے تو کوئی سیا ستدان ہے‘ کوئی بادشاہ اور وزیر ہے اور کوئی انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہوا منصف ہے اور کوئی عدالتی اہلکار ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ میرے ملک میں رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی عام آدمی کے استعمال کی ہر شے کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی جاتی ہے؟ سرکاری اہل کار رشوت کے نرخ بڑھا دیتے ہیں، پولیس کے ناکوں‘ جعلی پکڑ دھکڑ اور چالانوں کی آڑ میں لوٹ مار کا طوفان آ جاتا ہے، عدالتوں کے اہلکار ملزموں اور مدعیوں سے عید کی وصولی کا آغاز کر دیتے ہیں، مارکیٹ میں نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں ، جعلی ادویات کی بھر مار کر دی جاتی ہے ، تھوڑی سی دولت کے حصول کیلئے گدھے اور مردہ مرغیوں کا گوشت فروخت کیا جاتا ہے۔ مشینوں میں پائوڈر سے تیار کیے گئے دودھ کی فروخت جاری رہتی ہے اور پاکستان کی ہر سڑک پر ہزاروں کی تعداد میںسبزیوں اور پھلوں کے تاجر ٹھیلوں پر جعلی اوزان لئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی ہر مارکیٹ میں بیٹھا ہوا تاجر اور دکاندار اپنے خریدار کو لوٹنے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر متقی اور پرہیزگار کہاں گئے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں