کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کچھ کہنے کیلئے وفاقی دارالحکومت کا انتخاب انتہائی سوچ بچار کے بعد کیا اور یہ کہ زرداری صاحب اپنا ہر فیصلہ بر وقت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں بقول منیر نیازی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ'' ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘۔ سابق صدر مملکت نے ایک لمحے کی دیر کئے بغیر اپنے حصے کا کام دکھا دیا، باقی وہ جانیں جنہوں نے انہیں اس پر مبینہ طور پر اکسایا ہو گا۔ شاید سابق حکمران اور ان کے دوست جان چکے ہیں کہ کوئی پل آتا ہے کہ '' قانون‘‘ کے ہاتھ ان کے اور ان کے انتہائی قریبی ساتھیوں کی جانب بڑھنے ہی والے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے سوچا ہو گا کہ بجائے اس کے کہ وہ اچانک اور چپکے سے پکڑے جائیں بہتر ہے کہ جٹ دا کھڑاک کرتے ہوئے گرفتارہوںتاکہ اصل معاملہ اس جرأت اور بیباکی کے اظہار اور للکارا مارنے کے شور شرابے میں دبا دیا جائے۔ ماڈل ایان علی نے اڈیالہ جیل اور عزیر بلوچ نے جو کچھ پشاور میں حساس ادارے کی ایک تین منزلہ عمارت میں بیٹھ کر اُگل دیا ہے، سننے والے اس پر سر تھامے بیٹھے ہیں اور لگتا ہے اب اصل مقابلہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور میثاق جمہوریت کے سرپرستوں کے درمیان ہونے جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ پندرہ رائونڈز کی اس ریسلنگ میں کون کامیاب ہوتا ہے ؟ کیونکہ انتہائی با وثوق اطلاعات کے مطابق میثاق جمہوریت کے گاڈ فادر پاکستان میں مچنے والی ہلچل سے خاصے پریشان ہیں کیونکہ ان کے سامنے اگر ایک جانب سابق حکمران کی طرف سے کی جانے والی بے وقت کی شیلنگ ہے تو دوسری جانب جوڈیشل کمیشن اور این اے 122 پر کسی وقت سنائے جانے والے فیصلے ہیں... کیونکہ ان دو میں سے اگر ایک کا فیصلہ بھی تحریک انصاف کے حق میں آ جاتا ہے تو مئی2013ء کے انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی اور وہ چار حلقے، جن کے بارے میں عمران خان دھرنا دینے سے پہلے ایک سال تک مسلسل آواز اٹھاتا رہا ہے، انتخابات کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو صفر کر کے رکھ دیں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی اس بوچھاڑ کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ڈی جی رینجرز اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو تفصیلی خط میں لکھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور لائنز ایریا پروجیکٹ کے دفاتر پر رینجرز کے چھاپے حکومتی معاملات میں مداخلت ہیں اور اس طرح رینجرز حکومت کی جانب سے تفویض کئے گئے اصل اختیارات سے تجاوز کرر ہی ہے۔ رینجرز کوچاہئے کہ وہ اپنے اسی دائرہ کار میں رہ کر کام کرے کیونکہ ملک میں کام کرنے والی تمام پیرا ملٹری فورسز کو وفاقی اور سندھ حکومت کی جانب سے صرف دہشت گردی اور شیڈولڈ جرائم کو روکنے کے اختیارات ہی سونپے گئے ہیں، اس حد سے تجاوز قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ سابق صدر زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا اعتراض بھی سب کے سامنے ہے کہ کیا بلڈنگز کوڈ اور حکومتی کارکردگی دیکھنا بھی رینجرز کی ذمہ داری میں آگیاہے؟۔ سندھ حکومت اور فرحت اﷲ بابر کی جانب سے اٹھائے گئے یہ دونوں سوالات اپنی اپنی جگہ پر انتہائی اہم ہیں اور اداروں کی حدود و قیود کو جاننے والے سوچ سکتے ہیں کہ آیا اس طرح رینجرز سندھ حکومت کے کام میں رکاوٹ تو نہیں بن رہی ؟۔اور کیا اب ایف آئی اے کو سونپے جانے والے اختیارات رینجرز کے کسی بھی جانب بڑھنے والے قدموں کے سامنے سپیڈ بریکرز تو نہیں؟۔ سندھ حکومت اور فرحت اﷲ بابر کی جانب سے اٹھائے گئے ان سوالات اور اعتراضات کا جواب حاصل کرنے کیلئے6 جون کو کراچی گورنر ہائوس میں ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کو سامنے رکھنا ہو گا، جس میں ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے انٹیلیجنس معلومات کی روشنی میں تیار کی گئی کم از کم 230 ارب روپے کی لوٹ مار کی ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی، اگر یہ غلط تھی یا اس پر کوئی اعتراض تھا تو چاہئے تھا کہ اسی وقت بات کی جاتی لیکن اس وقت تو کچھ بھی نہ کہا گیا لیکن جیسے ہی یہ رپورٹ میڈیا کے ذریعے عام ہوئی تو قائم علی شاہ صاحب نے کہنا شروع کر دیا کہ پہلے ہمیں اس رپورٹ کی تفصیلات کے بارے اپنے طور پر تحقیقات کرنے دیں، اس کے بعد اگر منا سب سمجھا گیا تو رینجرز کو اس پر کارروائی کیلئے کہیں گے، لیکن ہوا یہ کہ اس رپورٹ کے ایک انتہائی اہم کردار منظور قادر عرف کاکا اور کچھ دوسرے لوگ مختلف راستوں سے ملک سے باہر پہنچا دیئے گئے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا رینجرز واقعی اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے؟ اور سندھ حکومت کے خط کے مطا بق بلڈنگ کوڈ اور فشریز کے معاملات میں رینجرز کی مداخلت کا کوئی جواز بنتا ہے؟۔ شاید محترم قائم علی شاہ بھول گئے ہیں کہ اپیکس کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا کہ ہر وہ شخص اور ادارہ جو دہشت گردی میں معاونت کرے گا اور جس کے بارے میں یقین ہو جائے گا کہ وہ دہشت گردوں کی کسی بھی طرح سے مالی معاونت کرتا ہے یا جس کے بارے میں واضح ہو جائے کہ وہ اپنے کسی بھی قسم کے وسائل دہشت گردوں کی سرپرستی اور انہیں کسی بھی قسم کی مالی یا سیا سی معاونت کیلئے استعمال کر رہا ہے، اس کی سرکوبی رینجرز کے دائرہ کار میں آئے گی۔مثلاً فشریز اتھارٹی کے کسی چھوٹے یا بڑے کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ یہ دہشت گردوں کیلئے اسلحہ اور مالی معاونت میں مدد گار ہے تو کیا اسے نظر انداز کر دیا جائے؟۔ اس لئے کہ یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے یا اگر لینڈ گریبنگ یا بلڈنگ کنٹرول اٹھارٹی کے ذریعے حاصل کیا جانے والاا ربوں روپیہ ملک دشمن سرگرمیوں کیلئے مدد گار ہو تو کیا اس کی روک تھام اپیکس کمیٹی کے واضح کردہ دائرہ کار میں نہیں آسکتی؟۔
17 جون کو وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے مابین اسلام آباد میں ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی اور جس کا مرکزی ایجنڈا ''کراچی سے رینجرز کی واپسی‘‘ سے مشروط تھا اور رینجرز کے اختیارات بانٹنے کیلئے ایف آئی اے کی سمری بھی تیار ہو چکی تھی لیکن ہوا یہ کہ جناب زرداری کچھ کہنے کی بجائے سب کچھ ہی کہہ گئے جس سے میاں نواز شریف کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا لیکن ان دونوں کے درمیان'' بیک ڈور رابطہ‘‘ موجو دہے اور یہ فیصلہ برقرار ہے کہ اگر سندھ حکومت آئین کے تحت رینجرز کی کراچی سے واپسی کا ارادہ کرتی ہے، تو مرکزی حکومت سندھ میں گورنر راج کیلئے رضامند نہیں ہو گی۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کا زرداری کے بیان پر ڈپلو میٹک تبصرہ اور میاں نواز شریف کے وزیر مملکت بلیغ الرحمان کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پی پی کے سربراہ کی تقریر پر جو کچھ کہا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکمرانوں کی پالیسی کے عین مطا بق ہے!! لیکن برا ہوا طلال چوہدری کا کہ ان تک ہدایات بہت دیر سے پہنچیں اور وہ، وہ کچھ کہہ گئے جو کبھی زرداری صاحب کے بارے میں نواز لیگ کی جانب سے شیخ رشید کہا کرتے تھے ۔ پی پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں جو کچھ کہا، اس کے خصوصی حصے کے ان الفاظ کو بھی سامنے رکھنا ہو گا کہ'' اپوزیشن جماعتوں‘‘ کو میں نے اپنے ساتھ باندھ رکھا ہے‘‘ آصف علی زرداری کا یہ فرمانا کہ اگر وہ اگست2014ء میں عمران خان اور قادری کا ساتھ دے دیتے تو اب تک نئے انتخابات کے علا وہ اور بھی بہت کچھ ہو گیا ہوتا، ان کا اشارہ شاید ماڈل ٹائون کے سانحہ کی جانب ہے۔