"MABC" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی: عروج و زوال

پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کی زیر قیا دت پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دوراقتدار نے اس جماعت کی عوامی مقبولیت کو پنجاب ، خیبر پختون خوا اور کراچی میں تو گھن کی طرح چاٹ لیا ،لگتا ہے کہ کل سندھ کا اقتدار بھی اس کے ہاتھ میں نہیں رہے گا اوراسے اندرون سندھ بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج جو لوگ اس کے ساتھ ہیں کل نہیں ہوں گے کیونکہ یہ نوشتۂ دیوار ہے۔ پیپلز پارٹی کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ عوام سے براہ راست رابطے کے لئے ان سے کھلے ہاتھوں ملنا پسند کرے گی یا 1993ء کی طرح منظور وٹوکے پیچھے ہاتھ باندھ کر ان کے پاس جانا پسند کرے گی۔ 
پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے بعد سے اپنے قائد جناب ذوالفقار علی بھٹوکی کرشمہ ساز قیادت میں 1970ء میں پاکستان کی انتخابی تاریخ کے پہلے صاف اور شفاف انتخابات میں مغربی پاکستان کی 138میں سے82 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد 1977ء کے متنازع انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل200 نشستوں میں سے 155پرکامیابی حاصل کی ، لیکن ان انتخابات کے بعد ملک بھر میں چلنے والی خونریز اور اعصاب شکن تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا نافذ ہوگیا اور نواب محمد احمد خان قتل کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ گیارہ سال بعد 1988ء میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں انتخابات میں حصہ لیا 
اور بھر پور سرکاری مداخلت اور انجینئرڈ دھاندلی کے با وجود قومی اسمبلی کی207 میں سے 93 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، لیکن جلد ہی 5 اگست 1990ء کو محترمہ کی حکومت ختم کر دی گئی۔ اس کے بعد نومبر 1990ء میں ہونے و الے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 207 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی بڑی مشکل سے44 نشستیں بچانے میں کامیاب ہوسکی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں اسلامی جمہوری محاذ کی جانب سے میاں نواز شریف وزیر اعظم نامزد کیے گئے۔ وہ وزیر اعظم بنے لیکن بہت جلد صدر غلام اسحاق خان سے شدید اختلافات کی وجہ سے پہلے اپریل اور پھر جولائی میں استعفیٰ دینے کی صورت میں رخصت کر دیے گئے۔ 1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نگران وزیر اعظم معین قریشی نے عام انتخابات کرائے جس میں پیپلز پارٹی نے 207 کے ایوان میں89 نشستوں پرکامیابی حاصل کی۔ آزاد اورچھوٹی پارٹیوں کے40 سے زائد ارکان کی مدد سے بے نظیر بھٹوکی حکومت قائم ہو گئی۔ مرکز کے ساتھ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بنی لیکن پنجاب میں وہ واضح اکثریت حاصل کرنے میں نا کام رہی ؛ چنانچہ اسے حامد ناصر چٹھہ کی وساطت سے منظور وٹوکو پنجاب میں بحیثیت وزیر اعلیٰ قبول کرنا پڑا۔ اس دن سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کمزور ہونا شروع ہوگئی تھی۔ پنجاب حکومت کے ہر اقدام کی قیمت پیپلز پارٹی کو ادا کرنا پڑی۔ منظور وٹو نے اپنی ذات، اپنے قریبی اور منظور نظر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو تو نوازنا شروع کر دیا لیکن پنجاب میں پوٹھو ہار سے لے کر وسطی پنجاب اور پھر جنوبی پنجاب میں جگہ جگہ پیپلز پارٹی کا ورکر کمزور ہوتا گیا۔ پنجاب میں ضلع ، تحصیل اور قصبے کی سطح پر سرکاری محکموں میں پیپلز پارٹی کا کنٹرول کمزور اور اس کے مخالفین کا مضبوط ہوتا گیا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اقتدار میں حصہ دار بنانے کے لئے فیصل صالح حیات اور بعد میں مشتاق اعوان کو نائب وزیر اعلیٰ یا سینئر وزیر بنانے کا تجربہ کیا گیا لیکن میاں منظور وٹو کے سامنے فیصل صالح حیات اور مشتاق اعوان دونوں بے بس ہوگئے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو یا پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کی طرف سے منظور وٹو کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا سوچا جاتا تو منظور وٹو نواز شریف کیمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے '' میں تو چلی پٹیالے‘‘ کی دھمکی دے کر سب کو خاموش کرا دیتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور سمیت پنجاب میں پیپلز پارٹی اپاہج ہوگئی۔ اس کا اثر و رسوخ کم ہوتا گیا، بیوروکریسی اس کے ہاتھ سے نکل گئی، اس کی ہر فائل مخالفین کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی۔ پنجاب میں عدلیہ، میڈیا اور بیورو کریسی کی ساری ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ ہوگئیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ لاہور کے تاجروں نے شادی کی ایک تقریب میں اس وقت کے ایک چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے کہا، آپ ہمیںکب پیپلز پارٹی کی حکومت سے نجات دلا رہے ہیں؟ اس باریش چیف جسٹس نے کہا: ''آپ لوگ اٹھیں، ہمت کریں، با قی کام ہم مکمل کر لیںگے‘‘۔ 
پھر حالات نے ایک اورکروٹ لی۔ مہران گیٹ سکینڈل کے سائے میں ایک نئی سازش نے جنم لیا۔ فاروق بھائی نے محترمہ پر 58 ٹو بی کا صدارتی وار توکردیا لیکن انہیں وہ حاصل نہ ہوسکا جس کی وہ امید کئے بیٹھے تھے۔گویا۔۔۔۔ ''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ‘‘۔ 5 نومبر 1996ء کی رات سردار فاروق لغاری کے صدارتی حکم سے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی اور فروری 1997ء کے عام انتخابات میں پنجاب میں منظور وٹو کی وزارت اعلیٰ اورگھوڑوں کو مربے کھلانے کی کہانیاں اپنے انجام کو پہنچیں۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست پر کامیابی مل سکی جبکہ صوبائی اسمبلی کی 240 نشستوں میں سے بھی پیپلز پارٹی کے صرف دو ارکان منتخب ہو سکے۔ یوں حالت یہ ہو گئی کہ پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے لیے کوالیفائی نہ کر سکی، لہٰذا مسلم لیگ چٹھہ گروپ کے سعید احمد منیس کو پنجاب میں پانچ نشستوں کے ساتھ اپوزیشن لیڈر بنانا پڑا اور وہ بھی شہباز شریف کی منظوری سے۔ بھٹو کی روح اس روز بہت تڑپی ہوگی جس دن پیپلز پارٹی کو پورے پنجاب میں قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ملی؟ 
ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر 1993ء سے1996ء تک منظور وٹو اور اس کے بعد 2008 ء سے2013 ء تک مرکز میں آصف علی زرداری کی قیادت میں اس قدر سکڑگیا کہ''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ والا معاملہ ہوگیا۔ 27 دسمبر2007 ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے خون سے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو سمندر بنا دیا تھا جس سے اسے مرکز اور سندھ میں بھر پور کامیابی ملی، لیکن اُن پانچ برسوں کے دوران مرکز میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی اس قدر ناقص رہی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی اور ان کی بیٹی محترمہ بے نظیرکی شہادت سے جو دریا بپھرا تھا وہ آہستہ آہستہ ''بڈھا دریا‘‘ بن گیا۔ کسی نے پیپلز پارٹی کا یہ انجام سوچا بھی نہ ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں