سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نا صر الملک کی سربراہی میں تین معزز ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے طویل سماعت کے بعد اپنی حتمی رائے حکومت کے حوالے کر دی ہے۔ معزز جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آتے ہی پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا کہ اس فیصلے سے عمران خان چاروں شانے چت زمین پرگرگیا ہے۔ اب اسے ملک چھوڑ کر بھاگ جانے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہم سے معافی مانگے۔ کسی کی خواہش ہے کہ ایک ایک کر کے سب سے معافی مانگے اور مولانا فضل الرحمان کا ارشاد یہ ہے کہ اس لڑکے کو اب سیا ست چھوڑ کر کھیلوں کے سامان کی دکان کھول لینی چاہئے۔ لیکن میرے استاد محترم گوگا کہتے ہیں کہ عمران خان اگر اپنے چند بہت ہی قریبی صلاح کاروں سے معافی مانگتے ہوئے انہیں ایک سال کے لئے خود سے دور رہنے کی درخواست کر دے تو اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔ اپنے استاد گوگا دانشور سے جب میں نے جو ڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں پوچھا تو وہ اپنا مٹکے جیسا سر ہلاتے ہوئے الٹا مجھ سے پوچھنے لگے:''جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل6 کا کیا بنا‘‘۔ اپنے استاد کو کیسے کہوں کہ حضور ! انتخابات میں دھاندلی کے لئے قائم کئے گئے جو ڈیشل کمیشن کا آر اوز سے کیا تعلق اور جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا فوج سے کیا تعلق؟ عمران خان کو یہ حق کس نے دیا تھا کہ وہ بغیر فیصلہ سنے جو ڈیشل کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ راگ الاپنا شروع کر دے کہ مجھے اس کا ہر فیصلہ قبول ہو گا؟کیا یہ اختیار اسے دھرنوں اور جلسوں میں کئی کئی گھنٹے بھوکے پیاسے دور دراز سے آئے ہوئے دھکے کھانے والے عوام نے دیا تھا یا کسی خاص فرد نے؟ عمران خان کو اب مان لینا چاہئے کہ وہ پاکستان میں سیا ست کر رہے ہیں نہ کہ لندن، سویڈن، فرانس یا کسی دوسرے یورپی ملک میں جہاں کسی بھی کرسی پر بیٹھے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کو جواب دہ ہوںگے۔ جن کے سامنے بچوں اورخاندان کی نوکریاں نہیں بلکہ انسانی عظمت اہم ترین ہوتی ہے۔ جو ڈیشل کمیشن سے یہ امید ضرور تھی کہ وہ اپنی رپورٹ میں انتخابی اصلاحات کے بارے میں رائے ضرور دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر یہ رائے دے دی جاتی تو یہ کسی پارٹی یا فرد کی کامیابی نہیں بلکہ اس ملک کے مستقبل کی کامیابی ہوتی۔ قوم کو اصل جمہوریت کی جانب قدم بڑھانے کا موقع ملتا۔ عوامی والی رائے کا احترام بڑھ جاتا اور یہ گھروں سے نکل کر سردی گرمی کی شدت میں کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والے بوڑھوں، عورتوں اور نوجوانوں کی کامیابی قرار پاتا۔ عوام کے اپنے وطن عزیز پاکستان کی سربلندی اور خوشحالی کے لیے دیکھے جانے والے خواب کامیابی سے ہمکنار ہوتے اور پاکستان کی آج بوڑھی ہوتی ہوئی نسل اورآئندہ آنے والی نسلوںکے اس یقین اوراعتماد کو تقویت ملتی کہ ان کا دیا ہوا ووٹ کسی اور کی جھولی میں نہیں بلکہ ان کے پسندیدہ امیدوار کے بیلٹ باکس میں ہی جائے گا؟
لوگ تو اپنی طرف سے پکی آس لگائے بیٹھے تھے کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد وہ کہہ سکیں گے کہ اب ہمارے ملک کوانتخابات کے شفاف ہونے کا تصدیقی سرٹیفکیٹ کسی یورپی ملک یا عالمی ادارے سے لینے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کے بعد ہمارے ووٹ کا تقدس اسی طرح برقرار ہے گا جیسے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس میں ہے اورہم بڑے فخر سے سر اٹھا کر دعویٰ کر سکیں گے کہ پاکستان میں شفاف جمہوریت ہے جہاں عوام اور ان کے حقیقی نمائندوں کی وجہ سے تارکین وطن لٹنے کے خوف سے بے نیاز ہو کر اپنے ملک میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ لیکن شاید قدرت کو ابھی یہ منظور نہیں تھا۔
2013ء کے انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں اوورسیز خاندان پاکستان پہنچے
اور ان کے جذبے کا عالم یہ تھا کہ پولنگ کا عمل شروع ہو نے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی مئی کی گرمی میں اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لمبی قطاریں بنا کر کھڑے ہوگئے، لیکن رات گئے ٹی وی دیکھ کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ یہ نتائج کس نے تیار کیے ہیں کہ وہ پولنگ اسٹیشن جہاں ان کے مد مقابل جماعت کا اکا دکا ووٹر دکھائی دے رہا تھا وہاں سے ان کے مخالف امیدوار کو بھاری اکثریت سے کامیاب قرار دے دیا گیا ہے؟ یہی وہ سوالات اور خدشات تھے جو تین ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک سپریم کورٹ کی عمارت میں جاری رہنے والی جوڈیشل کمیشن کی سماعت کے دوران تحریک انصاف سمیت ہر سیا سی جماعت نے پیش کیے۔ پیپلز پارٹی کے چودھری اعتزاز احسن نے قصور کے حلقہ این اے139 اور لاہور کے این اے 124 کے بارے میں جو مواد جو ڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کیا اسے تو جھٹلایا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ باقی کچھ بھی نہ دیکھا جائے تو صرف انہی دو حلقے میں کی جانے والی بد دیانتی اور دھاندلی عام انتخابات کو یکسر مسترد کرنے کے لئے کافی ہے، لیکن رپورٹ میں اس کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔
مئی2013ء کے عام انتخابات کے تیسرے دن اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بلاول ہائوس لاہور میں سینئر صحافیوں سے ایک ملاقات میں یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ '' اگر یہ آر اوز انہیں مل جائیں تو وہ اگلا صدارتی الیکشن آسانی سے جیت سکتے ہیں‘‘۔ سربراہ مملکت کی جانب سے یہ بہت بڑی خبر تھی۔ یہ پورے الیکشن کمیشن اور انتخابی نتائج پر ایک سنگین کوڑا تھا جو ان کی جانب سے مارا گیا اور یہ الزام دنیا بھر کے سفارتی حلقوں نے پوری توجہ سے سنا۔ ہر طرف چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ یہ شبہ یقین میں بدلنے لگا کہ مئی2013 ء کے انتخابات انجنیئرڈ تھے۔ یہ الزام کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی جانب سے نہیں بلکہ اس صدر مملکت کی جانب سے لگایا جا رہا تھا جو پانچ سال اس ملک کا سپہ سالار اور اس وقت تک ایک نگران حکومت کا امین تھا۔
آصف علی زرداری کے ان الفاظ کا جواب دینے کے لئے عدلیہ کی انتہائی معتبر شخصیت کو سامنے لایا گیا جس نے دوسرے ہی دن کالا شاہ کاکو میں جوڈیشل اکیڈیمی کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں یہ کہا: ''کچھ لوگ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ریٹرننگ افسران پر الزامات لگا رہے ہیں، یہ ریٹرننگ افسران میں نے لگائے ہیں اور ان کے ہر عمل کی میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ ریٹرننگ افسران نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے جو لاجواب اور بے مثال محنت کی وہ انتہائی قابل تعریف ہے اور یہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں‘‘۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کو لوگ ''جو ڈیشل مر ڈر‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ آپ بھی سوچئے میں بھی سوچتا ہوں۔