"MABC" (space) message & send to 7575

افغان طالبان کی مدد

کیا امریکہ واقعی طالبان کی مدد کیلئے میدان عمل میں کود پڑاہے؟۔ یہ وہ سوال ہے جو آج بہت سے حلقوں میں زیر بحث ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ امریکہ نے بھارت کی سیاہی اپنے چہرے پر مزید ملنے سے گریز شروع کر دیا ہے؟ (کاش کہ یہی طرز عمل وہ کشمیر کے مسئلے پر بھی اپنا لے)۔ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے امریکہ کی سنجیدگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ امریکی ڈرون طیاروں نے افغانستان میں ظالم ترین اور ڈریکولا کے نام سے جانے اور پہچانے جانے والے افغان طالبان کے بدترین دشمن، داعش کے مقامی کمانڈر سعید اورکزئی اور ان کے ساتھیوں کو موقع ملتے ہی جہنم واصل کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور اس سے ایک روز پہلے داعش کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد کو اس کے دو درجن سے زائد ساتھیوں سمیت ڈرون کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ سعید اورکزئی جو بھارت کے زیر سایہ دن رات پاکستان میں قتل و غارت میں مصروف تھا اسے اور اس کے خطرناک ترین ساتھیوں کو ڈرون حملے میں جہنم واصل کرنا اور طالبان کی افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کو مانیٹر کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ اب افغانستان میں دیرپا امن لانے کا سنجیدگی سے خواہاں ہے۔
امریکہ اور چین کی بطور مبصر موجود گی اور پاکستان کی میزبانی میں افغان طالبان کے ساتھ اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ کی براہ راست نگرانی میں افغان حکومت کے نمائندگان کے مری میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات کی انتہائی اہم خبر نے جہاں ایک طرف سب کو چونکا کر رکھ دیا، وہیں کچھ چہروں اور ان کے مہروں کو درد شکم میں بھی مبتلا کر دیا۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو افغان حکومت میں انتہائی طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حامد کرزئی کے منتخب شدہ ہیں اور کچھ بھارت کے من پسند اور ان کی دن رات یہی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح افغان حکومت اور پاکستان میں دوریاں پیدا کی جائیں۔ نہ جانے وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آگ بھارت میں نہیں بلکہ ان دونوں ملکوں کے اند رلگی ہوئی ہے جسے بجھانا ہم سب کا فرض ہے۔ایسے افغان بیوروکریٹس اور سیا ستدانوں کو فیصلہ کر نا ہو گا کہ انہیں افغانستان کی سرزمین کا امن عزیز ہے یا بھارت کی علا قائی سازشیں؟۔ اگر یاد رہ گیا ہو توکوئی دو سال قبل پاکستان میں مقید افغان طالبان کے8 سینئر ترین رہنمائوں، جن میں ملا نور الدین ترابی،عبد الباری، اﷲ داد طیب اور ملا داد خان شامل تھے‘ کی اچانک رہائی، گو کہ حیران کن تھی لیکن یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ افغانستان میں امن کا عمل شروع ہونے والا ہے۔ اگر بارک اوباما جیسی بلند حوصلگی دس سال قبل امریکی صدر جارج بش دکھاتے اور یہی فیصلہ 9/11 کے بعد طالبان کی افغانستان میں بیٹھی ہوئی حکومت کرلیتی تو آج نہ تو امریکہ کو یہ دن دیکھنے پڑتے اور نہ ہی پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کو اور نہ ہی پانچ لاکھ سے زائد افراد جنگ کی تباہ کاریوں کی بھینٹ چڑھتے۔ امریکہ اور افغان طالبان کیلئے اس سے بہتر اور کوئی مشورہ نہیں کہ وہ جس قدر جلد ہو سکے‘ کامیابی سے ہمکنار ہونے کی کوشش کریں۔ اگر طالبان یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ دس سال سے زیا دہ جاری رہنے والی گوریلا لڑائی سے وہ کامیابی حاصل کر لیں گے یا امریکی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ بھارت، نیٹو، ایساف اور امریکی فوجوں کی گولہ باری سے افغانستان میں قدم جما لیں گے تو اس موہوم سی امید کیلئے انہیں ایک بہت ہی طویل جنگ کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔ طالبان کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ تاریخ خود کو کبھی کبھی نہیں بھی دہراتی۔ اگر وہ 30سال قبل روس کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ کا امریکہ کے ساتھ جنگ سے موازنہ کر رہے ہیں تو سخت غلطی پر ہیں کیونکہ اس وقت پانچ ممالک کے سوا پوری دنیا کا میڈیا اور وسائل افغان مجاہدین کے ساتھ تھے۔ اس وقت یہ افغان مجاہدین تھے‘ دہشت گرد نہیں‘ اور مغرب کے ہیرو سمجھے جاتے تھے ۔ روسیوں نے اپنی تباہ حال معیشت کی وجہ سے شرمناک شکست کا داغ لئے اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلا لی تھیں کیونکہ انہیں کسی الیکشن میں ہار جیت کا سامنا نہیں کرنا تھا، نہ وہ کسی 
کانگریس یا سینیٹ کو جواب دہ تھے۔ اس کی معیشت نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بر عکس امریکی اپنے فیصلوں کے غلام ہوتے ہیں اوروہ روسیوں کی طرح اپنا شکست خوردہ چہرہ لے کر عوام کے سامنے نہیں جا سکتے۔ امریکی صدر جانسن کی مثال سب کے سامنے ہے کہ ویت نام میں شکست کی وجہ سے دوبارہ الیکشن کا سامنا نہ کر سکے۔ ہو سکتا ہے کہ جو حالات آج طالبان کے حق میں ہیں وہ کل نہ ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل کو امریکہ افغانستان میں اپنے بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات کی وجہ سے مجبور ہوجائے۔ لیکن یہ کل ابھی بہت دور ہے کیونکہ ری پبلیکن کے طاقتور لیڈر جان مکین نے دو ہفتے قبل اپنے بیان میں اوباما کو افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلانے پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو مزید فوج کے ساتھ ابھی افغانستان میں رہنا ہو گا... اور اس طرح یہ کل اگر بہت طویل ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ دس بیس سال بعد آج کی طالبان قیا دت اپنی ضعیف عمری کی وجہ سے اس گوریلا جنگ کے قابل نہ رہے ۔ افغان جنگ کے تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا یہ بھی خیال ہے کہ مستقبل میں کسی قسم کی جنگی کامیابی نہ ہونے کی صورت میں نوجوان طالبان کی طاقت اور مدد میں واضح کمی ہو سکتی ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ طویل گوریلا جنگ ان کی کامیابی کا باعث بن سکتی ہے تو انہیں امریکہ ، نیٹو اور ایساف 
کے مقابلے میں سری لنکا کی مثال کو بھی سامنے رکھنا ہو گا جہاں تامل ٹائیگرز تیس سال کی طویل گوریلا جنگ کے باوجود کچھ نہ کر سکے ۔
طالبان کو جو موقع آج مل رہا ہے انہیں اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہو سکتا ہے انہیں ان شرائط پر یہ موقع دوبارہ نہ مل سکے کیونکہ آج اوباما انتظامیہ اگر امن کیلئے للچا رہی ہے تو دوسری جانب دنیا کی دوسری بہت بڑی طاقت عوامی جمہوریہ چین افغان حکومت اور افغان طالبان سے جڑی ہوئی ہے ۔ افغان حکومت نے مری کے ان ابتدائی دو روزہ مذاکرات کے بعد افغان طالبان کو فوری طور پر اپنے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دے دی ہے اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ مذاکرات امید افزا رہے ہیں۔ ان حالات میں طالبان کی حکمت عملی فوری طور پر کیا ہونی چاہئے؟۔ یہ ابھی وقت بتائے گا لیکن اشرف غنی کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہے کہ ان کی کامیابی میں افغان طالبان کا بہت بڑا ہاتھ ہے جسے وہ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اشرف غنی کو اپنے قریب چھپے ہوئے آستین کا سانپوں سے دور رہنا ہو گا جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ افغانستان میں امن ان کی مرضی کے بغیر ہو جائے۔ کیا امریکہ INDO-AMERICAN طالبان، جنہیں تحریک طالبان پاکستان اور اب داعش کا نام دے دیا گیا ہے، کی مالی اور فوجی امداد کے راستے بند کر نے کی کوششیں جاری رکھے گا؟۔بش انتظامیہ جو بھارت کو ایشیا کا واچ ڈاگ بنا نا چاہتی تھی یا بھارت جو بزعم خود ایشیا اور مشرق وسطیٰ کا ڈان بننے کے خبط میں مبتلا ہے‘ امن کی بحالی کے عمل کو مکمل ہونے دے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں