مقبوضہ کشمیرکے ایک سے دوسرے کونے تک بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج ،تین لاکھ سے زائد پیرا ملٹری فورسز اور ریاستی پولیس کی جانب سے کشمیری مسلمانوں ،سکھوں ، عیسائیوں اور وہاں بسنے والی دوسری اقلیتوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کے ثبوت مکمل دستاویزات کے ساتھ یکم جولائی کو ہیومن رائٹس کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل دنیا کے سامنے لے کر آئی ہے۔ اس رپورٹ نے کمزور دل لوگوں کو دہلا دیا ہے تو خود کو مضبوط سمجھنے والوں کو رلا دیا ہے۔ شاید یہ وہ ظلم ہے جسے دیکھنے کے بعد تاتاری بھی کہہ اٹھیں کہ دنیا کی ظالم ترین فوج بھارت کی ہے‘ جو طاقت ور کا نہیں بلکہ مظلوم ، محکوم اور کمزور قوموں کی ہڈیوں کا گودا کھانا اپنے دھرم کی سیواسمجھتی ہے۔ کاش ایمنسٹی انٹرنیشنل ہمت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی وہ اجتماعی قبریں بھی دکھا دیتی جہاں سینکڑوں کشمیریوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح گڑھوں میں دبا دیا گیا ہے۔ اگر سراجیوو کی اجتماعی قبریں دکھائی جا سکتی ہیں تو کشمیریوں کی یہ اجتماعی قبریں دکھانے میں کیا امر مانع ہے؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں جا ری کی گئی رپورٹ نے اقوام متحدہ کو شاید ابھی تک نہ جگایا ہو لیکن با ضمیر اقوام کے ضمیر کو ضرور جھنجھوڑ دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کی حالیہ رپورٹ سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر 1989ء سے اکتوبر2012ء تک مسلسل ظلم و بربریت کے بارے میں بھی ایک رپورٹ جا ری ہوئی تھی جس کے انتہائی محتاط اعداد وشمار کے مطا بق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی جانب سے 93,801 کشمیریوںکو شہید کیا گیا۔ ان میں سے 6,996 کشمیریوں کو بھارتی فوج کی جیلوں اور ان کے
ٹارچر سیلوں میں تھرڈ ڈگری استعمال کرتے ہوئے شہید کیا گیا، 22,764 کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں اور 1,07.441 بچے بچیاں یتیم۔ 10,042 کشمیری خواتین کو بھارتی فوج نے جبری اجتماعی زیادتیوں کا نشانہ بنایا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے خود میڈیا کے سامنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ بھارتی فوج کشمیر میں بے لگام ہوتی جا رہی ہے۔ بھارت کے آرمی چیف کا یہ اقرار ثابت کرتا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا ایک ایک لفظ سچائی پر مبنی ہے۔وی کے سنگھ کے ادا کئے گئے الفاظ یہ ہیں '''Basic reason' behind the flare up in the Kashmir Valley was the failure to build on the gains that had been made by in the Indian Security forces in the occupied state''
ظلم اورقتل و غارت کی اس سے زیا دہ کھلی چھٹی اور کیا ہو سکتی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حکومت ان 168 انکوائریوں کا فیصلہ ہی نہیں کر رہی‘ جن میں پولیس افسروں اور اہل کاروں کے خلاف ثابت ہو چکا ہے کہ انہوں نے اپنی تحویل میں لئے گئے افراد کو ماورائے عدالت قتل کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کی پامالی پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یکم جولائی کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطا بق: ان میں سے کسی ایک کے خلاف اب تک کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ اگر مارے جانے والوں کے لواحقین میں سے کوئی عدالت یا میڈیا کا سہارا لینے کی کوشش کرتا ہے توا سے رات کو گھر سے اٹھا کر لے جایا جاتا ہے اور ان میں سے کئی زندہ واپس نہیں آتے۔ گھروں سے اٹھائے جانے والے یہ لاپتہ اور مسنگ پرسن نہ جانے پاکستانی میڈیا کے کشمیریوں کو کیوں نظر نہیں آتے؟۔ ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے تیسرے پیراگراف میں تو کھل کر لکھا گیا ہے کہ اب صورت حال اس قدر بد تر ہو چکی ہے کہ لوگوں کا مقبوضہ کشمیر میں عدلیہ پر بھی اعتماد تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔رپورٹ میں بھارتی حکومت اور مقبوضہ کشمیر حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایک غیر جانبدار اور آزاد ادارے کے ذریعے ان سنگین خلاف ورزیوں کی عالمی قوانین کے مطا بق تحقیقات کرائیں اور جن جن کے خلاف ثبوت پیش کئے جائیں ان کا فیئر ٹرائل کرتے ہوئے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ بھارتی حکومت سے انسانی حقوق کے نام پر اپیل کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ''پانچ جولائی 1990ء کو یعنی آج سے 25 سال قبل مقبوضہ کشمیر میں نافذ کئے جانے والے اے ایف پی اے کے سیکشن سات کے تحت بھارتی فوج، سکیورٹی فورسز اور پولیس کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ماورائے قانون جو چاہیں کریں‘ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں‘ اب بہت ہو چکا‘ اس قانون کو فوری ختم کر دینا چاہئے کیونکہ کسی مہذب معاشرے کیلئے جہاں انسان بستے ہوں یا جہاں انسانوں کی حکومت ہو وہاں ایسا قانون نافذ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی سعید جولائی 1990ء میں آج سے پچیس برس قبل اس وقت وادی کے وزیر داخلہ تھے جب یہ بدترین اور سیاہ ترین ظالمانہ قانون نافذ کیا گیا۔ آج جبکہ وہ خود وزیر اعلیٰ ہیں انہیں چاہئے کہ اس قانون کو فوری طوری پر منسوخ کردیں۔
بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے وہ الفاظ دنیا بھر کے میڈیا کی فائلوں میں جب چاہیں دیکھے جا سکتے ہیں‘ جس میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اب ہم نے ''بھارتی فوج کو سختی سے ہدایت کر دی ہے وہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کا احترام کریں‘‘۔ ہم سب نے دیکھ رکھا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جب کبھی پاکستان کے بارے میں کوئی رپورٹ دیتی ہے تو ہمارے ہی ملک کے چند میڈیا گروپ اوران کے تنخواہ داروں کی زبانیں تلواروں کی طرح ملک کے دفاعی اداروں کی جانب لپکنا شروع ہو جاتی ہیں لیکن آج ایک مہینہ گزر چکا ہے لیکن ان سب کی کمانیں بھارت کا نشانہ لینے کا حوصلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔
بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ کب تک اپنی عوام کے ساتھ دھوکہ اور فریب کرتی رہے گی؟ وہ کب تک اقوام عالم کے سامنے جھوٹ کے انبار لگاتی رہے گی؟ وہ کب سمجھے گی کی آج کی دنیا کی نئی نسل سنتی ہی نہی بلکہ تحقیق کرنے کے بعد دیکھتی بھی ہے۔ اس کے اب اپنے آزاد ذرائع بھی ہیں۔ وہ نسل چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہے‘ اب ظلم اور زیا دتی کا ساتھ دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔بھارت شاید سمجھ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ کرائے گئے انتخابات میں اس نے دنیا کو جو کچھ بتایا یا دکھا یا ہے وہ اسے سچ مان گئی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے دنیا بھر میں اپنے مشنوں کے ذریعے یہ تاثر دینے کی نا کام کوشش کی ہے کہ ان انتخابات میں صرف دو فیصد کشمیریوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ابھی بھارتی جعل سازوں کی اس رپورٹ کی سیا ہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پورا مقبوضہ کشمیر پاکستان کے قومی پرچموں کے ساتھ باہر آ کھڑا ہوا ہے۔ ان پر لاٹھیاں، گولیاں اور گیس بم پھینکے جا رہے ہیں۔ جیلیں بھری جا رہی ہیں۔ اگر یہ صرف دو فیصد ہیں جنہوں نے پاکستان کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا تھا تو پوری وادی کشمیر میں پھیلی ہوئی جیلوں میں اس وقت ایک لاکھ سے بھی زائد لوگ کون ہیں‘ جو بھارتی فوج نے اے ایف پی اے کی سیکشن سات کے تحت بند کر رکھے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارتی فوج اور اس کی سکیورٹی فورسز کو اب کیمپوں کی بجائے جیلوں میں رکھا جا رہا ہو‘ جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی ہر جیل کھچا کھچ بھری ہوئی نظر آ رہی ہے؟ اور ان جیلوں سے رات گئے جو دردناک چیخوں کی آوازیں پوری وادی میں گونجتی ہیں وہ کشمیریوں کے گوشت پوست سے نہیں بلکہ نشے میں دھت بھارتی فو جیوں کی بے ہنگم چیخ و پکار کی وجہ سے سنائی دیتی ہیں؟