"MABC" (space) message & send to 7575

گورداسپور میں بلیک کیٹ یا ریڈ بریگیڈ؟

تیس سال قبل بھارتی سکیورٹی فورسز کے ظلم و ستم سے تنگ آئے ہوئے سکھوں کی خالصتان تحریک کو کس طرح ختم کیا گیا،انہیں سکھ عوام کی نظروں میں بد نام کر نے کیلئے دینا نگر گورداسپور جیسے کون کون سے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے‘ ان کے متعلق اگر بھارت کی وزارت داخلہ اور خارجہ کو یاد نہیں رہا تو انہیں یاد کرائے دیتے ہیں کہ اندرا گاندھی کی جانب سے مقرر کئے جانے والے گورنر پنجاب کے پی ایس گل نے خود تسلیم کیا ہے کہ '' ہم نے جیلوں سے اور انڈر گرائونڈ مافیا سے بدنام ترین جرائم پیشہ افراد کو اپنے ساتھ ملا کر انہیں خالصتان کی آزادی کیلئے کام کرنے والی مختلف سکھ تنظیموں میں شامل کر دیا تھا اور کچھ نئی تنظیمیں اپنی طرف سے کھڑی کردی تھیں جن میں ایس ایس پی اظہر عالم کی سربراہی میں Black Cats کے نام سے بھی ایک تنظیم پنجاب میں قائم کی گئی تھی۔ اظہر عالم کی جانب سے برپا کی جانے والی بر بریت کی وجہ سے اس وقت اسے '' عالم سینا‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کے علا وہCIB کے فنڈز اور مدد سےPanthic Tiger Force اور'را‘ کی زیر نگرانی مشہور زمانہ Red Brigadeکو متحرک کیا گیا جنہوں نے سکھوں کی مقدس تحریک آزادی کو عوام کی نظروں میں بد نام کر نے کیلئے ان سے ہمدردی رکھنے والے سکھوں اور ان کی گھریلو خواتین کے ساتھ ظلم اور زیا دتی کا بازار گرم کر دیا۔ شریف شہریوں اور کاروباری لوگوں سے لوٹ مار اور بھتہ خوری کی انتہا کر دی۔ یہ حقائق گزشتہ پانچ دس سالوں سے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ریٹائر ہونے والے لوگ اور اس وقت پنجاب کے ہلاکو خان کے نام سے مشہور گورنر کے پی ایس گل اپنی نجی محفلوں اور اخبارات و رسائل کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑے فخر سے بتاتے رہے ہیں ۔ 
دینا نگر گورداسپور پولیس اسٹیشن پر حملے سے پہلے 26 جولائی کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل پٹیالہ کی پنجابی یونیورسٹی کے ہال میں بھگوان پرشو رام کی تقریب میں شرکت کیلئے جیسے ہی پہنچے تو دو سکھ نوجوان طالب علم سروپ سنگھ سانڈھا اور راجندر سنگھ خالصتان کی آزادی کے نعرے مارتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ ان کے ساتھ ہال میں موجود دوسرے سکھ طالب علم بھی شامل ہو گئے جس پر وزیر اعلیٰ کے سکیورٹی سٹاف اور پولیس نے ان نوجوانوں کو زبردستی ہال سے باہر نکال دیا اور پھر چار سکھ نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جن میں گردیان سنگھ اور درشن سنگھ بھی شامل ہیں ۔ پرکاش سنگھ بادل کے خلاف نعرے بازی کا یہ واقعہ دینا ناتھ حملے سے کوئی بارہ گھنٹے پہلے کا ہے۔ گورداسپور میں سکھوں کی ہندوئوں کے خلاف روز بروز بڑھتی ہوئی نفرت کی دیگر وجوہ کے علاوہ ایک سبب دینا نگر میں HDS بینک کے پاس بڑے چوک میں ہنو مان کے بہت بڑے بت کی تنصیب ہے جسے مذہبی سکھوں کی جانب سے یہاں سے ہٹانے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن ہر بار بھارت کے مشہور فلمی اداکار ونود کھنہ جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی ٹکٹ پر یہاں سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتے آ رہے ہیں‘ کی مداخلت پر حالات کچھ عرصے کیلئے معمول پر آ گئے۔ بھارت کی فوج اور اس کی ایجنسیاں جد وجہد آزادی کرنے والے کشمیریوں اور سکھوں کی تنظیموں سے نمٹنے اور انہیں بدنام کر نے کیلئے اس حد تک گر جاتی ہیں کہ اپنے ہی معصوم شہریوں کا خون بہانا ان کا عام معمول بن گیا ہے۔
27 جولائی کو صبح پانچ بجے دینا ناتھ پر نا معلوم حملہ آوروں کے واقعہ کے بعد بھارت کا تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا مسلسل پاکستان کے خلاف گوئبلز کے بہتان اگل رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح ان کے تیروں کا ہدف پاکستان اور اس کی آئی ایس آئی ہے۔ ان کی جانب سے ایسی ایسی بے تکی چھوڑی جا رہی ہے کہ ساری با خبر دنیا ان پر ہنس رہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ تک جان گئے ہیں کہ اصل ڈرامہ کیا ہے اور کس نے کیا ہے؟۔ بھارت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس طوفان کو تھوڑا سا تھمنے دیں چاروں جانب اڑائی جانے والی گرد کو بیٹھنے دیں‘ بہت جلد دینا ناتھ گورداسپور کا اصل سچ نکھر کر سب کے سامنے آ جائے گا کہ سکھوں کی دوبارہ ابھرتی ہوئی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے کوئی نئی '' عالم سینا ‘‘ قائم کی گئی ہے یا بلیک کیٹ اور ریڈ بریگیڈ پر کوئی نیا نقاب چڑھا دیا گیا ہے۔ گورداسپور دینا ناتھ میں برپا کی جانے والی اس دہشت گردی اور بھارت کے خلاف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی Sanctions Committee میں پاکستان کی جانب سے کسی بھی وقت پیش کی جانے والی قرار دار کو ضرور سامنے رکھیں کیونکہ دینا ناتھ میں بے گناہوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔پھر حملہ کے بعد ستائیس جولائی کی شام کو بھارتی حکومت کا یہ ریکارڈ بھی ذہن میں رکھ لیں جس میں ان کا سٹیٹ منسٹر جتیندر سنگھ میڈیا پر کہہ رہا تھا کہ ہمیں چند دن پہلے سے ہی اطلاع تھی کہ پاکستان سے کچھ دہشت گرد بھارت میں داخل ہو نے والے ہیں لیکن یہی سوالات مختلف جگہوں پر بھارت کی پنجاب کی سرحد سے ملحقہ بارڈر سکیورٹی فورس کے انسپکٹر جنرل انیل پانیوال سے کہا گیا کہ جب ان کے پاس یہ اطلاعات تھیں کہ دہشت گرد پاکستان سے بھارتی پنجاب میں داخل ہونے والے ہیں تو آپ نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ریکارڈ گواہ ہے کہ ہمیں اس بارے کسی بھی قسم کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی اور یہی جواب انسپکٹر جنرل پنجاب بارڈر زون ایشور چندر نے میڈیا کو دیا کہ ہمیں حکومت کی کسی بھی ایجنسی یا وزارت داخلہ کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی اطلاع مہیا نہیں کی گئی۔ اس واقعہ کے چند گھنٹے بعد انسپکٹر جنرل کائونٹر ٹیررازم گردیو یادیو نے بھی یہ کہہ کر ان سب کے بیان کی تائید کر دی کہ ان کے پاس دہشت گردوں کی آمد یا کارروائی کے بارے کسی بھی قسم کی اطلاع نہیں تھی۔ 
دینا ناتھ پر حملہ آوروں کے خلاف پنجاب پولیس اور بھارتی فوج کے گیارہ گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے مشترکہ آپریشن میں گورداسپور پولیس کے ایس پی(ڈیٹیکٹو) بلجیت سنگھ ہلاک ہو ئے۔ ان کے پولیس افسر باپ کو بھی خالصتان کی تحریک آزادی میں اپنی قوم سے نفرت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا جس پر ایس پی گل نے بلجیت سنگھ کو بھرتی کیا اور اب وہ کئی سال سے جگہ جگہ حکام کو درخواست پر درخواست دے رہا تھا کہ اس کی ترقی کی جائے‘ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔ اس سے وعدے تو کئے جاتے رہے تھے لیکن پورا ایک بھی نہ ہوا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلجیت سنگھ کے خاندان سے اظہار ہمدردی کیلئے جب مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل ان کے گھر پہنچے تو سوگوار خاندان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ ان کے بیٹے کو پولیس میں ڈی ایس پی اور بیٹی کو تحصیلدار بھرتی کیا جائے اور وہ کسی وعدے پر نہیں بلکہ صرف پوسٹنگ آرڈر پر یقین کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں