1998ء میں حکومتی کنٹرول میں لئے گئے کچھ بینکوں کے ملازمین ایک صبح جب اپنے دفاتر پہنچے تو بیرونی دروازے بند کرکے انہیں مژدہ سنا یا گیا کہ حکومت پاکستان کی ہدایات کی روشنی میں آپ لوگوں کو '' گولڈن شیک ہینڈ‘‘ سے نواز کر سروس سے ریٹائر کر دیا گیا ہے، اب آپ لوگ گھروں میں جا کر آرام کریں۔اس بات کو آج سولہ سال گزر چکے ہیں لیکن گولڈن شیک ہینڈ سے زبردستی فیضیاب ہونے والے ان لوگوں کے زخم ابھی تک ہرے ہیں۔ اسی طرح کی ایک واردات اب بھی کی جارہی ہے، دوسرے لفظوں میں امریکہ بہادر کے حکم سے کر دی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک اور بینک کے ہزاروں کارکنوں کو گولڈن شیک ہینڈ سے نہیں بلکہ پس پردہ رہ کر ''آہنی ہاتھ دکھانے‘‘ والے کے اشارے پر گھروں کو بھیجا جا رہا ہے۔ یہ واردات کرنے والے شاید نہیں جانتے کہ جو کچھ وہ کرنے جا رہے ہیں اس کے نتیجے میں ہزاروں گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے۔ ان گھرانوں کے افراد کی تعداد کا اندازہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس بینک کی پاکستان کے 43 شہروں میں104 شاخیں کام کر رہی ہیں۔
اس معاملے کا پس منظر جاننے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سابق حکومت کے وزیر خزانہ نے اس بینک کے ایک مرکزی حصے دار کو، جس کے اس میں چالیس فیصد حصص تھے، ایک دن بلا کر حکم دیا کہ وہ اپنے کمرشل بینک میں کسی کمپنی کی جانب سے کوئی ڈیپازٹ اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک بحیثیت وزیر خزانہ ان کی اور اس وقت کی خاتون وزیر خارجہ کی زبانی اجازت نہیں لے لیتے۔ اپنی طرز کا یہ ایک عجیب اور مضحکہ خیز حکم تھا، جس کے بارے میں واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ انوکھا حکم امریکی انتظامیہ کے دبائو پر جاری کیا گیا تھا۔ امریکہ کی ناراضگی کا سبب متعلقہ بینک میں جمع کرائی گئی بیس کھرب روپے کی وہ مبینہ رقم تھی جس پر امریکہ کے تحفظات تھے کہ اس جانب سے ایک مسلمان ملک پر عائد پابندیوں کے با وجود اس کے ایک شہری کی وہ مبینہ بھاری رقم کیوں جمع کی گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے وزیر خزانہ نے خود بینک سے درخواست کی تھی کہ پاکستان کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کیلئے اس ملک کی تیل کی آمدنی سے حاصل کئے جانے والے ڈیپازٹ جمع کر لیے جائیں۔ بینک نے جن غیر ملکی مسلم کمپنیوں کی رقوم حاصل کی تھیں وہ کسی طور پر بھی اس ملک پر اقوام متحدہ کی جانب سے لگائے جانے والی پابندیوں کی زد میں نہیں آتی تھیں۔
سوئٹزر لینڈ میں آئل اینڈ گیس سے متعلقہ ایک کمپنی نے برادر اسلامی ملک کے تیل کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم ملائشیا میں واقع اس بینک کی برانچ میں جمع کرائی اور ا س کیلئے با قاعدہ حکومتی اجازت حاصل کی گئی اور14 ستمبر 2014ء کو سوئٹزر لینڈ میں کام کرنے والی اس کمپنی کے نمائندوں نے اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں اس وقت کی وزیر خارجہ سے با قاعدہ ملاقات کی جس میں انہیں مکمل یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان میں ان کے جمع کرائے جانے والے تمام اثاثہ جات کی ضمانت دی جائے گی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین کے مطا بق کسی بھی کمرشل بینک میں جمع کرائے جانے والے فارن کرنسی اکائونٹس کی مجموعی تعداد اس کے کل جمع شدہ اکائونٹس کے بیس فیصد سے زیا دہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن یہاں کچھ انتہائی با خبر ذرائع کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ بینک کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے خصوصی حکم کے ذریعے اپنے فارن کرنسی اکائونٹس سو فیصد تک بڑھانے کی اجا زت دی گئی تھی ۔کہا جا رہا ہے کہ اس
کہانی میں موڑ اس وقت آیا جب یو ایس انفورسمنٹ ایجنسی کے فارن ایسٹس کنٹرول آ فس (OFAC) کو ان ڈیپازٹس کے بارے میں علم ہوا جس پر امریکی حکومت نے شدید ناراضگی اور غصے کا اظہار کیا ۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اس دبائو کے بعد سٹیٹ بینک نے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس ستم رسیدہ بینک کو تنہا چھوڑ دیا۔
جب متاثرہ بینک انتظامیہ نے سٹیٹ بینک کی لاعلمی کا پول کھولتے ہوئے امریکہ کےOFEC حکام کو حقائق سے آگاہ کیا تو اس سچ سے پاکستان کے مرکزی بینک کی انتظامیہ مزید مشتعل ہو گئی اور جب متاثرہ بینک کی انتظامیہ نے سٹیٹ بینک کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے اپنے کلائنٹس کے اعتماد کو برقرار رکھنے کیلئے چند دوسرے کمرشل بینکوں کے ساتھ ادغام کی کوششیں شروع کیں تو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذمہ داروں نے ان تمام کمرشل بینکوں کے مالکان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ اس کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات اور معاملات سے اپنے آپ کو فوری طور پر علیحدہ کر لیں۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے ہی ایک بینکMerril نے خود کو اس سے طے ہونے والے تمام معاملات سے علیحدہ کر لیا؛
بلکہ سٹیٹ بینک کے حکم سے اس متاثرہ بینک میں جمع فارن کرنسی اکائونٹس کو'' سپیشل کنورٹیبل روپیہ اکائونٹس‘‘ میں تبدیل کر دیا ۔
اب اس بینک کو یہ ظاہر کرتے ہوئے اجاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شاید یہ دیوالیہ ہونے والا ہے اور اس کیلئے سٹیٹ بینک کی جانب سے 16 نومبر2014ء کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ متعلقہ کمرشل بینک اپنے کلائنٹس کو تین لاکھ تک کی ادائیگی کر سکتا ہے۔ جب اس بارے میں سٹیٹ بینک سے رابطہ کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ اگر کلائنٹس تین لاکھ روپے تک رقم اس بینک سے نکال لیں گے تو اس طرح مجموعی ڈیپازٹس کا92.3 فیصد سرمایہ کلائنٹس کے پاس چلا جائے گا۔ سٹیٹ بینک کا اس بارے یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں آپریشنل کمرشل بینکوں میں 8.7 ٹریلین روپے سرمایہ جمع ہے اور بینک کا کل سرمایہ0.7 فیصد بنتا ہے جو کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ کسی بھی بینک کیلئے اس وقت کام کرنا کس طرح ممکن رہ جاتا ہے جب اس کو کنٹرول کرنے والا سٹیٹ بینک اس کے کلائنٹس سے کہنا شروع کر دے کہ ''جلدی کرو، اپنے اپنے پیسے یہاں سے نکال لو‘‘ ۔اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ اس'' پرائیویٹ کمرشل بینک‘‘ کے عام کلائنٹس کے مجموعی اثاثے 3.57 بلین روپے سے بھی زائد ہیں، لیکن امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اسے ''Virtually ZERO'' پر فروخت کرنے کی تیاریاںکی جا رہی ہیں۔