یہ تو یاد کرانے کی ضرورت ہی نہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سیا ست میں آنے اور اپنی علیحدہ سیا سی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ حامد خان سے افتخار چوہدری کے قریبی اور دلی تعلقات سے بھی بار اور بنچ کا ایک ایک رکن واقف ہے۔ کل جب حامد خان لاہور میں ایک تقریب میں اپنے ''کارکنوں‘‘ سے خطاب کر رہے تھے اور میڈیا بھرپور کوریج دے رہا تھا تو عین اسی وقت افتخار چوہدری ایک سوال کے جواب میں فرما رہے تھے کہ ابھی انہوں نے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے، نام اس کا مناسب وقت پر رکھا جائے گا لیکن ''دوست احباب‘‘ اس سلسلے میں اپنا اپنا ''کام ‘‘ کر رہے ہیں اور یہ بھی خبر ہے کہ حامد خان کے اس حملے میں پنجاب کی اہم ترین شخصیت کا ایک انتہائی قریبی عزیز بھی پیش پیش ہے جس کے بارے میں با خبر حلقے ایک سال سے کہہ رہے تھے کہ اس شخص کی قیا دت میں تحریک انصاف کا پنجاب اسمبلی میں فارورڈ بلاک سامنے آ رہا ہے۔ اگر عمران خان کو یاد رہ گیا ہو تو جو ڈیشل کمیشن کے قیام سے بھی بہت پہلے انہیں آگاہ کر دیا گیا تھا کہ جسٹس وجیہ ٹربیونل کی رپورٹ محض ایک بہانہ ہے، وجیہ الدین اور حامد خان افتخار چوہدری کے ساتھی ہیں اور شریف برادران کے مہرے بنا کر آپ کے خلاف لانچ کئے جائیں گے ۔ لیکن اس وقت خان صاحب نے میری اور ایک مشہور اینکر کی بات کو ہنسی میں اڑا دیا۔
جیسے ہی جو ڈیشل کمیشن کی رپورٹ آئی، میڈیا کے بہت سے لوگوںکو اچانک جاوید ہاشمی کی یاددلانا شروع کر دی گئی اور یہ وہ لوگ تھے کہ جب مہران بینک اور اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا ہلکا سا فیصلہ سامنے آیا تھا تو انہوں نے جاوید ہاشمی کو یونس حبیب سے پیسے لینے کے جرم میں اپنے نشانے پر لے لیا کیونکہ اس وقت وہ عمران خان کے ساتھی تھے لیکن اب یہی جاوید ہاشمی ان سب کی نظروں میں سب سے پوتر ہو چکے ہیں کیونکہ اب ان کے لباس پر تحریک انصاف کے چھینٹے جو نہیں پڑے ہوئے۔ جب دیکھا کہ جاوید ہاشمی کے ذریعے ہمارا حملہ کوئی اثر نہیں دکھارہا تو سیا ست کے گرگوں نے وجیہ الدین اور حامد خان کی شکل میں اپنے طاقتور مہروں کو آگے کر دیا اور ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ان کے پاس چلے ہوئے کارتوسوں کی لمبی فہرست ہے۔حامد خان کا اعتراض بھی یہی ہے کہ پی پی اور مسلم لیگ نواز کے جو لوگ تحریک انصاف میں شامل ہونے کیلئے پر تول رہے ہیں، انہیں دور رکھا جائے کیونکہ اس طرح کی خبریں سننے سے ان کے نئے آقائوں کا دل دکھی ہونے لگتا ہے۔
حامد خان جب اپنی میڈیا کانفرنس میں کارکنوں کی عزت اور انہیں اعلیٰ مقام دینے کی بات کر رہے تھے تو سننے والے اس وقت ہنس رہے ہوں گے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ کارکنوں کی کس قدر عزت کرتے ہیں۔ کارکنوں اور غریب لوگوں کی عزت کرنے کا نظارہ2013ء کے انتخابات میں کھل کر ہو چکا ہے، جب حامد خان کو ووٹوں کی ضرورت تھی۔ وہ اپنے گھر آنے والے کارکنوں سے بات کرنے سے بھی کتراتے تھے اور لاہور تحریک انصاف کی یہی قیادت اور ان کے حلقہ125 کے کارکن ان کی منتیں کرتے تھے کہ ریلوے لائن سے ملحقہ آبا دیوں میں آپ کو گھر گھر جانا ہو گا لیکن وہ ہمیشہ اس سے احتراز کرتے رہے، شاید اس لئے کہ ان علا قوں میں اچھے لباس، اچھے گھروں اور اچھے برتنوں والے کارکن نہیں تھے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں سے حامد خان کا گزشتہ دس سالوں میں جتنا اور جس طرح کا رابطہ رہا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے۔ حامدخان تو ایک پیشہ ور وکیل ہیں۔ لیکن جسٹس وجیہ الدین کو چاہیے کہ پارٹی انتخابات کے پردے میں نہیں بلکہ اپنے ضمیر اورپرانے تعلقات کی بنا پر عمران خان سے کہہ دیں کہ وہ افتخار چوہدری
کے ساتھی ہیں۔ یہی بات حامد خان جیسے لوگوں کو بھی کھل کر کہہ دینی چاہیے کہ وہ افتخار چوہدری کی قیا دت کو مانتے ہوئے مسلم لیگ نواز کی بی ٹیم میں شامل ہونے جا رہے ہیں ۔حامد خان صاحب کی پریس کانفرنس کے بعد ان کے وکلا گروپ کے کچھ لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے جو اندرونی کہانی سنائی وہ ابھی سامنے لانا منا سب نہیں لیکن ان کے ساتھی وکلاء میں سے بہت سے لوگ اُن کی ان حرکتوں سے مایوس ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حامد خان کو چاہئے کہ وہ ''کاروبار‘‘ کو سیا ست سے الگ رکھیں۔ حامد خان نے کہا ہے کہ عمران خان کے خاص ساتھی الیکٹ ایبل کے نام پر ان کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اگر یہ اتنے ہی الیکٹ ایبل تھے تو کنٹونمنٹ کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے کیا کر لیا۔ حامد صاحب آپ شاید بھول گئے ہیں کہ گذشتہ پانچ سالوں سے آپ سپریم کورٹ بار اور تین سالوں سے ہائیکورٹ بار میں اپنے الیکٹ ایبل لوگ سامنے لاتے رہے ہیں، ان کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ عمران خان کو کراچی کے ''ڈاکٹر مبشرحسن‘‘ سے بھی ہوشیار رہنا پڑے گا۔ یہ بات میں اپنی معلومات کی بنا پر میں آج کھل کر لکھ رہا ہوں۔
حامد خان نے اپنے پہلے حملے میں اسے ہی نشانہ بنایا ہے جو '' جیٹ ترین‘‘ کی صورت میں نواز لیگ کو درپیش رہتا ہے۔ اگر کسی کو آرمی پبلک سکول پشاور کے اندوہناک سانحہ والے دن پشاور کے گورنر ہائوس کا منظر یاد نہیں رہا تو پھر سے اس کی منظر کشی کیے دیتے ہیں کہ جب عمران خاںاسلام آباد کا اپنا دھرنا ختم کر کے جہانگیر ترین کے ہمراہ گورنر ہائوس پشاور پہنچے تو وہاں وزیر اعظم نواز شریف نے عمران خان سے تو ہاتھ ملا لیا لیکن ان کے ساتھ آئے پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین سے ہاتھ تک ملانا گوارہ نہیں کیا، بلکہ منہ دوسری جانب پھیر لیا، حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب پوری قوم آرمی پبلک سکول کے 130 سے بھی زائد بچوں کی بھارت نواز دہشت گردوں کے ہاتھوں شہا دت پر نوحہ کناں تھی۔ حامد خان اور وجیہ الدین کا نشانہ بھی وہی JT ہے۔ یہ کیسا حسین اتفاق ہے کہ ان سب کا مشترکہ دردِ سر جہانگیر ترین ہی ہے؟۔ عمران خان اسی وقت سب کچھ جان چکے تھے جب افتخار چوہدری کے عمران خان کے خلاف دائر ہتک عزت کے مقدمے میں ان کی جانب سے جواب دعویٰ میں ان کے دستخطوںکے بعد ''افتخار چوہدری سے معذرت‘‘ کا پیراگراف شامل کر دیا گیا۔ اس معافی نامہ نما جواب دعویٰ کی وجہ سے عمران خان کی میڈیا پر کئی ہفتوں تک جو درگت بنی اور جس کے طعنے افتخار چوہدری بھی عمران خان کو بار بار دیتے ہیں وہ تذلیل تحریک انصاف ابھی تک نہیں بھولی۔ عمران خان اپنی وضع داری کی وجہ سے اب تک خاموش رہے لیکن اب انہیں یہ بوجھ اتارنا پڑے گا کیونکہ اپنی آستین کو صاف نہ رکھنے والا ہمیشہ ڈسا جاتا ہے۔!!