"MABC" (space) message & send to 7575

سرِ دار نہ اس کو چڑ ھائو لوگو!

ملک کی اہم ترین فوجی شخصیات پر الزامات کی جو گولہ باری وزیر ماحولیات مشاہد اﷲ خان نے کی اس نے 14 اگست کو والہانہ طریقے سے یوم آزادی مناتے ہوئے شہریوں کے مطمئن چہروں پر رنج و غم کی اداسیوں کی سیاہ چادر ڈال دی۔ قوم پہلی بار فاٹا اور بلوچستان میں وطن دشمنوں کے نو گو ایریاز میں قومی پرچموں کو لہراتا ہوا دیکھ کر خوش ہو رہی تھی، افغان سرحد کے قریب پہاڑی چوٹیوں کو بھارت نواز تحریک طالبان کے نرغے سے محفوظ دیکھ رہی تھی، افواج پاکستان یوم آزادی کے سلسلے میں ولولہ انگیز پریڈ کر رہی تھیں اور14 اگست کی شب اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز سے ادا کرنے پر خدا کے حضور شکر ادا کر رہی تھیں کہ مشاہد اﷲ خان صاحب نے ایک زور دار دھماکہ کر کے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔جس نے بھی سنا وہ سکتے میں آ گیا کہ یہ کیا کہا گیا ہے؟۔ ایک وفاقی وزیر کی زبان سے افواج پاکستان کے بارے میں ایک نئی کہانی کس کے کہنے پر شروع ہو گئی ہے؟۔ سننے والے سن رہے تھے کہ کیسے مرکزی وزیر پورے وثوق سے بی بی سی کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ظہیر الاسلام نے وزیر اعظم ہائوس پر حملے اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی سازش کی تھی؟ انٹیلی جنس بیورو نے اس سلسلے میں کچھ لوگوں سے ہونے والی ان کی بات چیت کی باقاعدہ ریکارڈنگ بھی کر لی تھی اور یہ ریکارڈنگ وزیر اعظم نواز شریف نے بطور ثبوت آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سنائی تھی جسے سن کر وہ حیران رہ گئے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وزیر موصوف کے بقول یہ ثبوت ملنے کے بعد جنرل راحیل نے ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الا سلام کو وہ آڈیو ٹیپ سنانے کے بعد ان سے وضاحت مانگی کہ کیا یہ آپ کی ہی آواز ہے؟ جنرل ظہیر نے ان کے سامنے جب اقرارکیا تو راحیل شریف نے غصے میں انہیں وہاں سے چلے جانے کوکہا۔ 
فوج کے اعلیٰ افسران پر حملوں کا یہ سلسلہ بے وجہ یا اچانک نہیں‘ بلکہ اس کا آغاز جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس سے بھی پہلے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ہوا تھا، جس میں افواج پاکستان کو عمران خان کے دھرنے کا ذمہ دار قرار دینے کے لئے ہر سیاسی جماعت کے ایک ایک رکن سے افواج پاکستان کا نام لے کر تضحیک کرائی گئی اور اس کے لئے حکمران جماعت کے ایک اہم رکن نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے لیڈروں کو خاص ایجنڈا بھی دیا۔یہاں تک کہ اے این پی کے حاجی عدیل نے کہا کہ آج جب میں پارلیمنٹ ہائوس کی طرف آ رہا تھا تو مجھے ایسا لگا کہ ''کمپنی بہادر‘‘ کی فوجوں نے ہم سب کو گھیرا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے بھی پارلیمنٹ کے اسی مشترکہ اجلاس میں فوج کے خلاف زبان استعمال کی۔ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ اس پس منظر میں انہیں کیا کیا ملا اور کیا کیا مزید ملنے والا ہے۔ لاہوری گروپ اور پنجاب حکومت کے درمیان طے پانے والے بلدیاتی کوٹے سے یہ سب عنقریب واضح ہو نے والا ہے۔21 ستمبر 2014ء کو جاوید ہاشمی کے منہ میں بھی مخصوص الفاظ ڈالے گئے۔ خاطر جمع رکھیے، کچھ لوگوں کے پاس جاوید ہاشمی کے رابطوں کی داستانیں بھی لازماً موجود ہوں گی جو بہت جلد سامنے لائی جائیں گی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، مشاہد اﷲ خان نے جو کچھ کہا، ہو بہو وہی نجم سیٹھی سے یکم اگست2015 ء کو کہلوایا گیا تھا۔
یہ بات تو اب بچہ بچہ جان چکا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو دبائو میں لانے کے لئے کس طرح شطرنج کے مہروں کو ایک ایک کرکے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ مشاہد ا ﷲ خان نے بھی وہی کچھ کہا جو انہیں فیڈ کیا گیا‘ بلکہ اب تو ہتھیار ڈالنے والے فراریوں نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ بلوچستان میں ان کے ساتھ مل کر پاک فوج کے خلاف چاکر خان کے نام سے گوریلا جنگ لڑنے والا بھی ٹی وی پر وہی کچھ کہتا ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔کہیں ایسا تو
نہیںکہ وہ تالیاں ہضم نہیں ہو سکیں، وہ سٹینڈنگ خراج تحسین برداشت نہیں ہو سکا جو جنرل راحیل شریف کو کنونشن سینٹر اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے دیا؟ 14اگست کی صبح جیسے ہی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کنونشن سینٹر میں داخل ہوئے، کھچا کھچ بھرے ہوئے ہال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک دم بجلی سی دوڑ گئی اور تقریب کے شرکا نے اپنی نشستوں پرکھڑے ہوکر بھر پور تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔ شاید سویلین حکمرانوں کو یہ منظر ہضم نہیں ہو سکا۔چنانچہ شطرنج کی ڈھائی چال رکھنے والے مہرے کو آگے بڑھایا گیا۔ وفاقی وزیر زبیرعمر ایک ٹی وی پروگرام میں تسلیم کر چکے ہیں کہ مشاہد اﷲ خان سے بی بی سی کا انٹر ویو اس تقریب کے مکمل ہونے کے کئی گھنٹے بعدکرایا گیا تھا۔
اب ایک دلچسپ قصہ سن لیں۔ جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو جنرل نصیراللہ با بر نے آرمی چیف جنرل وحیدکاکڑ کو خط لکھا کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ آئی ایس آئی نے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا اور جنرل اسلم بیگ کی ہدایات پر نواز شریف اور جاوید ہاشمی سمیت دوسرے سیا ستدانوں کو لاکھوں روپے تقسیم کئے گئے۔ یہ خط ملنے پر جنرل وحیدکاکڑ نے تمام فارمیشن کمانڈرز کا اجلاس بلا کر ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ تمام جنرلز نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ جنرل اسلم بیگ اورآئی ایس آئی چیف سمیت ان تمام سیا ستدانوں کا محاسبہ کیا جائے‘ جنہوں نے رقوم وصول کیں۔ یہ تجویز وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھیج دی گئی اور ساتھ ہی جنرل اسد درانی کا حلفیہ بیان بھی ان کے حوالے کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو یہ خط اپنے پاس رکھ کر بیٹھ گئیں کیونکہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف صرف الزامات کی بارش کرتے ہیں، اس حد تک نہیں جاتے کہ وہ بالکل ننگے ہو جائیں۔ پھر ایک رات دو بجے کے قریب جنرل بابر اور وزیر قانون اقبال حیدر یہ تمام ثبوت ایئر مارشل اصغر خان کے گھر جا کر ان کے حوالے کر آئے۔ وہ دن اور آج کا دن، فوج اپنے سمیت ہر کسی کا احتساب کرنا چاہتی ہے لیکن کبھی ترازو اورکبھی بازو آڑے آ جاتا ہے۔ مشاہد اﷲ خان صاحب جب مالدیپ سے واپس پہنچے تو ایئر پورٹ پر ان کی زبان سے یہی نکلا کہ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ بات اس حد تک بگڑ جائے گی۔ شاید ان کا خیال تھا کہ ان سے پہلے کئی سیاستدان کئی بار انہی الزامات کی تکرار کر چکے ہیں، اس لئے کچھ نہیں ہوگا۔ کیا اب کوئی اٹھے گا جو اصغر خان کیس سمیت اس طرح کے تمام مقدمات کی صداقت کو تسلیم کرائے۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے استعفوں کی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات کو نظریہ ضرورت کے تحت رکوائیںتو یہ جائز ہے اور اگر کوئی اس ملک کو بچانے کے لئے، وطن دشمنوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اور اس ملک کی آدھی سے زیا دہ دولت لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اقدامات کرے تو''سرِ دار نہ اس کو چڑھائو لوگو‘‘کا ورد شروع کر دیا جاتا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں